بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں دینے کی نیت سے رکھی ہوئی رقم سے کسی قرض دار کا قرض ادا کرنے کا حکم


سوال

میں نے مسجد میں ایک لاکھ روپے دینے کی نیت کی تھی،پھرمیرے ایک ہمساۓ کو قرضہ لینے والے نے تنگ کیا تومیں نےبیس ہزار روپےکے ذریعہ اس کا قرض ادا کر دیا،اور باقی رقم مسجد میں دے دی، اب ہمسایہ قرضدار مجھےبیس ہزار روپے قرضہ واپس نہ دے سکتا ہوتو اس صورت میں مجھے کیا کرنا ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں رقم دینے کی فقط نیت کرنے سے  وہ رقم مسجد میں دینالازم نہیں ہوتی،جب تک کہ زبان سے نذر نہ مان لی جائے ،لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے  مسجد میں ایک لاکھ روپے دینے کی فقط نیت کی تھی ،زبان سے اس کی منت نہیں مانی تھی اور نہ ہی اس کی زبان دی تھی تو محض نیت  کرنے سے وہ مکمل ایک لاکھ روپے مسجد میں دینا لازم نہیں ہوئےتھے،اس لیے  سائل کی جانب سےمذکورہ رقم میں سے  بیس ہزار روپے اپنے ہمسایہ کے قرض کی ادائیگی میں لگانااور بقیہ رقم مسجد میں دیناجائز ہے،اور اگر وہ ہمسایہ قرض دار یہ پیسے فوری واپس نہ کرسکتا ہو تو سائل اس کو اتنی مہلت دے کہ وسعت اور قدرت کے وقت باآسانی قرض ادا کردے،اور اگر سائل ازخود یہ قرض معاف کردےتو اس پران شاءاللہ بہت زیادہ اجر ملےگا۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(سورة البقرة:280) "

ترجمہ :"اوراگر تنگ دست ہوتو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ (بات) کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو اس کے ثواب کی خبر ہو۔"(بیان القرآن)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رأيت ليلة أسري بي على باب الجنة مكتوبا: ‌الصدقة ‌بعشر ‌أمثالها، والقرض بثمانية عشر، فقلت: يا جبريل ما بال القرض أفضل من الصدقة؟ قال: لأن السائل يسأل وعنده، والمستقرض لا يستقرض إلا من حاجة ."

(كتاب الصدقات، باب القرض، ج:رقم الحديث:2431، ج:2، ص:812، ط:دار احياء الكتب العربية)

ترجمہ: "حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا ، صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا ہے، تو میں نے جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ اے جبرئیل! کیا وجہ ہے کہ قرض کا ثواب صدقہ سے زیادہ ہے ؟ تو جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا: اس لیے کہ مانگنے والا سوال کرتا ہے، حالاں کہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا ضرورت کی وجہ سے ہی قرض مانگتا ہے."

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أنظر معسرًا، أو وضع له، أظله الله يوم القيامة تحت ظل عرشه يوم لا ظل إلا ظله» ."

(ابواب البيوع، ‌‌باب ما جاء في إنظار المعسر والرفق به، رقم الحديث:1306، ج:3، ص:591، ط:مكتبة مصطفي)

ترجمہ : "حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی تنگ دس کو (قرض کے معاملہ میں)مہلت دی یا اس کا قرض معاف کردیا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کے سایہ میں رکھے گا جب کہ اس کے سوا اس دن کوئی سایہ نہ ہوگا۔"

بدائع الصنائع میں ہے:

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(كتاب النذر، ج:5، ص:81، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں