بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں نسوار استعمال کرنے کا حکم


سوال

مسجد میں نسوار استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نسوار کا استعمال فی نفسہٖ مباح ہے، لیکن پسندیدہ نہیں ہے، البتہ نسوار کی بدبو سے (مسجد میں) نمازیوں اور فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے؛ لہذا  مسجد میں اس کا استعمال درست نہیں، بلکہ جو نسوار یا اس طرح کی بدبودار چیزیں کھانے کا عادی ہو، اس کو چاہیے کہ مسجد میں آنے سے پہلے منہ اچھی طرح صاف کرے اور مسواک وغیرہ کا اہتمام کرے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"(من أكل ثومًا أو بصلًا فليعتزل مسجدنا وليقعد في بيته؛ فإن الملائكة تتأذى مما يتاذى منه بنو آدم".

(المساجد، باب نهي من أكل ثومًا أو بصلًا...الخ ، الرقم : 564)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع، فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد".

(ج:6 ، ص:459، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وسئل بعض الفقهاء عن أكل الطين البخاري ونحوه قال: لا بأس بذلك ما لم يضرّ، وكراهية أكله لا للحرمة بل لتهييج الداء".

(ج:5 ، ص:341، ط: ماجديه)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"نسوار سے اگر نشہ ہوتا ہو تو وہ بھی ناجائز ہے، ورنہ مضائقہ نہیں"۔

(18/ 388، ط: ادارۃ الفاروق) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501100605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں