بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں موجود لوگوں کو سلام دعا کرنے اور دنیاوی بات چیت کرنے کا حکم


سوال

مسجد میں  نمازی ساتھیوں سے سلام، دعا کرنا اور دنیاوی معاملات پہ بات چیت یا بحث کرنا جائز ہے؟ براہِ کرم راہنمائی فرمادیں کیوں کہ میں نے ایک حدیث میں سنا تھا (حدیث کا حوالہ یاد نہیں) کہ مسجد میں سلام کا جواب دینے کی ممانعت ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر موجود حاضر لوگوں میں سے اُن لوگوں کو سلام کرنا جائز ہے جو  کسی عبادت (تلاوت یا درس وغیرہ) میں مشغول نہ ہوں، اور اگر لوگ عبادت وغیرہ میں  مشغول ہوں تو پھر ان کو سلام کرنا منع  ہے، تاہم اگر کچھ لوگ عبادت میں مشغول ہوں اور کچھ فارغ بیٹھے ہوں، تو فارغ بیٹھے ہوئے لوگوں کو اتنی آواز سے سلام کرے کہ عبادت میں مشغول لوگوں کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو۔

جہاں تک مسجد میں دنیاوی معاملات پہ بات چیت یا بحث و مباحثہ کی بات ہے، تو مسجد ایک پاکیزہ و مقدس مقام ہے،اور مسجد عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے، مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا یا فضول قسم کے بحث و مباحثے کرنا اس کی حرمت و تقدس کے منافی ہے، اس لیے یہ جائز نہیں، تاہم اگر کوئی مسجد میں نماز وغیرہ عبادت کے لیے آئے اور پھر کسی سے مباح گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو ایسے طریقے پر بات کرلینے میں حرج نہیں کہ جس سے دوسروں کی عبادت میں خلل نہ ہو، لیکن بالقصد دنیاوی گفتگو کے لیے مسجد میں بیٹھنا جائز نہیں، اور   فحش اور منکر بات تو مسجد میں کسی حال میں جائز نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌السلام ‌تحية ‌الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية. يكره السلام عند قراءة القرآن جهرا، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضا، كذا في الغياثية."

(كتاب الكراهية، الباب السابع في السلام وتشميت العاطس، ج: 5، ص: 325، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والكلام المباح؛ وقيده في الظهيرية بأن ‌يجلس ‌لأجله.

(قوله بأن ‌يجلس ‌لأجله) فإنه حينئذ لا يباح بالاتفاق لأن المسجد ما بني لأمور الدنيا. وفي صلاة الجلابي: الكلام المباح من حديث الدنيا يجوز في المساجد وإن كان الأولى أن يشتغل بذكر الله تعالى، كذا في التمرتاشي هندية وقال البيري ما نصه: وفي المدارك - {ومن الناس من يشتري لهو الحديث} [لقمان: 6] المراد بالحديث الحديث المنكر كما جاء «الحديث في المسجد يأكل الحسنات كما تأكل البهيمة الحشيش»، انتهى."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 662، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں