بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں وضو کے پانی کے قطرے گرانے کا حکم


سوال

مسجد میں وضو کے پانی کے قطرے  گرانے کا  عمل  کیسا ہے؟اگر مکروہ ہے تو اس کا حوالہ بتادیں؟

جواب

مسجد میں وضو کرتے ہوئے مسجد میں پانی کے قطرے  گرانا مکروہ ہے،ہاں اگر کسی شخص نے مسجد کے باہر وضو کیااور مسجد میں داخل ہونے کے بعد ہاتھ،داڑھی یا پاوں سے پانی کا کوئی قطرہ مسجد پر گرا تو یہ مکروہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره الإعطاء مطلقا، وقيل إن تخطى ،ورفع صوت بذكر إلا للمتفقهة والوضوء فيما أعد لذلك".

"(قوله والوضوء) لأن ماءه مستقذر طبعا فيجب تنزيه المسجد عنه، كما يجب تنزيهه عن المخاط والبلغم بدائع".

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع في المسجد، ج:1، ص:660، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وعلى هذا الأصل ينبني أن التوضؤ في المسجد مكروه،وعند أبي حنيفة وأبي يوسف وقال محمد: لا بأس به، إذا لم يكن عليه قذر، فمحمد مر على أصله أنه طاهر، وأبو يوسف مر على أصله أنه نجس.

وأما عند أبي حنيفة فعلى رواية النجاسة لا يشكل.

وأما على رواية الطهارة؛ فلأنه مستقذر طبعا فيجب ‌تنزيه ‌المسجد ‌عنه كما يجب تنزيهه عن المخاط والبلغم".

(كتاب الطهارة، فصل في الطهارة الحقيقية،ج:1،ص:68،ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411102229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں