بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں اجرت پر کوئی پیشہ اختیار کرنا


سوال

مسجد میں پیسوں کے عوض جلد (بائنڈنگ) کا کام کرنا کیسا ہے؟  اس کا شرعی حکم بیان کردیں ،  نیز اس معاملے میں تقویٰ کیا ہے؟  اسے بھی بیان کردیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسجد میں رکھے ہوئے  قرآن اور دینی کتب کو مسجد میں رہتے ہوئے جلد سازی کرنا اور اس کا معاوضہ لینا شرعا درست ہے ، یہ تقوی کے منافی نہیں،  البتہ مسجد میں رہتے ہوئے یہ پیشہ اختیار کرنا کہ لوگ باہر سے قرآن اور دیگر دینی کتب لا کر اجرت دے کر جلد سازی کروائیں، یہ شرعا درست نہیں۔

تبیین الحقائق میں ہے:

" (وكره إحضار المبيع والصمت والتكلم إلا بخير) أما إحضار المبيع وهي السلع للبيع فلأن المسجد محرز عن حقوق العباد وفيه شغله بها وجعله كالدكان وقوله وكره إحضار المبيع يدل على أن له أن يبيع ويشتري ما بدا له من التجارات من غير إحضار السلعة وذكر في الذخيرة أن المراد به ما لا بد له منه كالطعام ونحوه وأما إذا أراد أن يتخذ ذلك متجرا يكره له ذلك وهذا صحيح لأنه منقطع إلى الله تعالى فلا ينبغي له أن يشتغل فيه بأمور الدنيا ولهذا تكره الخياطة والخرز فيه ولغير المعتكف يكره البيع مطلقا لما روي أنه - عليه الصلاة والسلام - «نهى عن البيع والشراء في المسجد» رواه الترمذي وعنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع في المسجد فقولوا له لا أربح الله تجارتك» الحديث أخرجه النسائي وقال - عليه الصلاة والسلام - «من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل لا ردها الله عليك»."

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج:1، ص:351، ط:المطبعۃ الکبری)

فتاوی شامی میں ہے:

 "(وكره) أي تحريما لأنها محل إطلاقهم بحر (إحضار مبيع فيه) كما كره فيه مبايعة غير المعتكف مطلقا للنھی."

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج:2، ص:449، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں