بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں توسیع و زیب زینت کروانا


سوال

اسلام میں مسجد کی اصلی شکل کیسے ہو سکتی ہے. کیا گنبد اور مینار بنانا ضروری ہے. اور مسجدوں کے اندر شیشوں سے جو سجاوٹ کی جاتی ہے اس پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے. کیا یہ بھی مسجد کے اندر ہونا ضروری ہے. اگر ضرورت کی چیزیں مثلا دیواروں میں ٹائل لگانا تاکہ در و دیوار مضبوط ہو جائیں اور بار بار روغن کرانے کی ضرورت نہ آئے . مسجد کی چھت کے نیچے سیلنگ لگوانا. تاکہ ٹمپریچر پر قابو پایا جا سکے اور نمازی آرام سے نماز پڑھ سکیں. ان سب کے علاوہ باقی سب چیزیں کرانا ضروری ہے. کیا اس سے پیسے کا ضیاع نہیں ہوتا؟

جواب

مسجد کے مسجد ہونے کے لیے  کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کا مینارا ور  محراب ہے،مسجد پر گنبد بنانےکی بھی اجازت ہے کیوں کہ اس  سے مقصود ہوا کا حصول اور قدرتی روشنی کے ساتھ ساتھ مسجد کی خوبصورتی بھی مقصود ہوتی ہے،  ساتھ  ساتھ اس کی عمارت شاندار ہو اور دوسری عمارات سے الگ اور ممتاز بھی ہو، لہذا مسجد کی خوبصورتی ، ہوا اور شاندار بنانے  کے لیے مسجد پر گنبد اور مینار  بنانا درست ہے، لازم نہیں ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر کمیٹی والوں کی نظر میں اس توسیع کی ضرورت ہو اور کوئی معقول وجہ ہو، مثلا: موجودہ وسائل سے فائدہ اٹھا کر آئندہ کے لیے پیش بندی کرنا وغیرہ، تو کمیٹی مسجد میں اس طرح کی توسیع کرسکتی ہے کیونکہ کمیٹی مجاز ہے۔

 مسجد کی تعمیر کےمتعلق ضابطہ یہ ہے وہ مسجد جس محلے میں واقع ہو، اس محلے میں موجود گھروں کے معیار سے اگر برتر نہ ہو، تو کسی طرح ان سے فروتر بھی نہ ہو، بلکہ کم از کم ان کے معیار کے مطابق ہو۔ اس سےزائد تزیین و آرائش کے لیے وقف کے پیسوں کا استعمال جائز نہیں، اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مال سے اس تزیین و آرائش کا اہتمام کرتا ہے، تو گنجائش ہے، الغرض مسجد علاقے کے مکانات سے عمدہ و اچھی ہو جائز ہے، بیت اللہ اور مسجدِ نبوی کو دیکھ لیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لاباس بنقشه خلا محرابه بجص، وماء ذهب بماله لا من مال الوقف، وضمن متولیه لو فعل، النقش البیاض ، الا اذا کان لاحکام البناء."

( کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا 1: 658، ط: سعید )

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ولا بأس بنقشه خلا محرابه) فإنه يكره لأنه يلهي المصلي. ويكره التكلف بدقائق النقوش ونحوها خصوصا في جدار القبلة قاله الحلبي. وفي حظر المجتبى: وقيل يكره في المحراب دون السقف والمؤخر انتهى. وظاهره أن المراد بالمحراب جدار القبلة فليحفظ (بجص وماء ذهب) لو (بماله) الحلال (لا من مال الوقف) فإنه حرام (وضمن متوليه لو فعل) النقش أو البياض إلا إذا خيف طمع الظلمة فلا بأس به كافي، وإلا إذا كان لإحكام البناء(قوله ويكره التكلف إلخ) تخصيص لما في المتن من نفي البأس بالنقش، ولهذا قال في الفتح: وعندنا لا بأس به، ومحمل الكراهة التكلف بدقائق النقوش ونحوه خصوصا في المحراب اهـ فافهم (قوله ونحوها) كأخشاب ثمينة وبياض بنحو سبيداج اهـ ط (قوله وظاهره إلخ) أي ظاهر التعليل بأنه يلهي، وكذا إخراج السقف والمؤخر، فإن سببه عدم الإلهاء، فيفيد أن المكروه جدار القبلة بتمامه لأن علة الإلهاء لا تخص الإمام، بل بقية أهل الصف الأول كذلك، ولذا قال في الفتاوى الهندية: وكره بعض مشايخنا النقش على المحراب وحائط القبلة لأنه يشغل قلب المصلي اهـ ومثله يقال في حائط الميمنة أو الميسرة لأنه يلهي القريب منه (قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله. اهـ. شرنبلالية (قوله إلا إذا خيف إلخ) أي بأن اجتمعت عنده أموال المسجد وهو مستغن عن العبارة، وإلا فيضمنها كما في القهستاني عن النهاية (قوله وتمامه في البحر) حيث قال: وقيدوا بالمسجد إذ نقش غيره موجب للضمان إلا إذا كان معدا للاستغلال تزيد الأجرة به فلا بأس به، وأرادوا من المسجد داخله فيفيد أن تزيين خارجه مكروه؛ وأما من مال الوقف فلا شك أنه لا يجوز للمتولي فعله مطلقا لعدم الفائدة فيه، خصوصا إذا قصد به حرمان أرباب الوظائف كما شاهدنا في زماننا".

(کتاب الصلوۃ، فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر، ج:1، ص:658، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501101225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں