بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں تراویح پڑھانے کا زیادہ حق دار کون ہے؟


سوال

 امام ،متولی، متولی کے بیٹے یا محلے کے حفاظ میں سےمسجد میں تراویح پڑھانے کا زیادہ حق دار کون ہے؟ شرعی اعتبار سے راہ نمائی فرما کر  ممنون  فرمائیں!

جواب

صورت مسئولہ  میں اگر امام حافظ ہے بوقتِ تقرری تراویح پڑھانا اس میں شامل تھا تو سب سے پہلے تراویح میں قرآن پاک سنانے کا حق امام مسجد کو ہے ،البتہ اگر مسجد کی انتظامیہ نے امام کو مقرر کرتے وقت ہی صراحت کر دی تھی کہ تراویح میں قرآن پاک سنانے کا امام طے کرنے کا اختیار مسجد کی انتظامیہ کو ہوگا تو ایسی صورت میں مسجد کی انتظامیہ اپنی مرضی سےتراویح کاامام  مقرر کر سکتی ہے، اور اس پرامام کو اعتراض کاحق   نہیں ہوگا اور اگر کوئی صراحت نہیں کی تھی بلکہ امام کوتمام نمازوں  کی امامت کے لئے رکھا تھا تو ایسی صورت میں تراویح کا حق  بھی اسی امام کو حاصل ہوگا اور اس کی مرضی کے بغیر انتظامیہ کا اپنے طور پر تراویح کا امام مقرر کرنا درست نہیں،اور اگر امام حافظ نہیں ہے تو مسجد کی انتظامیہ( متولی ،متولی کے بیٹے یا محلے کے حافظ میں سے )کسی باشرع  کو تراویح میں قرآن مجید سنانے کے لئے منتخب کر سکتے ہیں ۔ 

بخاری شریف  میں ہے:

"وقال عمر: إن مقاطع الحقوق عند الشروط، ولك ما شرطت".

(صحیح البخاری،کتاب الشروط،باب: الشروط في المهر عند عقدة النكاح.2/ 970 ط:ابن کثیر)

ترمذی شریف میں ہے:

" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين، إلا صلحا حرم حلالا، أو أحل حراما، والمسلمون على شروطهم، إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما".

(سنن الترمذی ، باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح، رقم الحدیث:1352 ،3/ 626 ط:مصطفیٰ البابی )

فتاویٰ شامی میں  ہے:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد ‌الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا (إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما، وصرح الحدادي بتقديم الوالي على ‌الراتب ...

(قوله مطلقا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه"۔

(الدرالمختار مع ردالمحتار،كتاب الصلاة ،باب الامامۃ1/ 599 ط:سعید)

 کفایت المفتی میں ہے:

"اگر امام خود حافظ نہیں ہے تو مسلمان نمازیان مسجد کو حق ہے کہ جس حافظ کو پسند کریں اس کو تراویح میں قرآن مجید سنانے کے لئے مقرر کرلیں"۔

( کفایت المفتی،کتاب الصلاۃ،امامت وجماعت،3/ 110ط:دارالاشاعت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں