بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں تدفین کرنا


سوال

 اگر کوئی عالم یہ وصیت کرے کہ مجھے مرنے کے بعد مسجد میں جگہ کی نشاندہی کے ساتھ کہیں( اس جگہ نماز بھی پڑھی جاتی ہے ) دفن کرنا،  اور اس مسجد میں وہ امام خطیب ہوں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جائز نہیں اور ان کو مسجد میں دفن کر دیا جائے تو کیا حکم شرعی ہے؟ ایسی مسجد جس میں قبر یا قبور ہوں،  اس میں نماز ہو جاتی ہے؟

جواب

1۔ مسجد میں تدفین کرنا شرعًا جائز نہیں،  لہذا اگر کسی نے مسجد میں دفن  کیے جانے کی وصیت کی ہو تو ایسی وصیت باطل ہوگی،  وصیت کے باوجود  اسے مسجد میں دفن کرنا جائز نہ ہوگا ۔

2۔ اگر وصیت کے مطابق مسجد میں تدفین کردی ہو تو حکومت یا عام مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ اس قبر کو اکھاڑ کر میت  نکال کر عام قبرستان میں دفن کردیں، اور  مسجد میں جس مقام پر قبر بنائی ہو اس کو برابر کرکے حسبِ سابق صف کا حصہ بنادیں، تاکہ واقف کا مقصد  فوت نہ ہو، اور موقوفہ  مسجد کا غیر اوقاف  کے  ساتھ  مشغول ہونا  لازم  نہ  آئے۔

الدر المختار میں ہے:

"حَفَرَ قَبْرًا فَدُفِنَ فِيهِ آخَرُ مَيِّتًا فَهُوَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَوْجُهٍ: أَنَّ الْأَرْضَ لِلْحَافِرِ، فَلَهُ نَبْشُهُ وَ لَهُ تَسْوِيَتُهُ، وَ إِنْ مُبَاحَةً فَلَهُ قِيمَةُ حَفْرِهِ، وَ إِنْ وَقْفًا فَكَذَلِكَ."

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَ إِنْ وَقْفًا فَكَذَلِكَ) أَيْ فَلَهُ قِيمَةُ حَفْرِهِ، وَ هَذَا ذَكَرَهُ فِي الْأَشْبَاهِ بَحْثًا فَقَالَ: وَ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَقْفُ مِنْ قَبِيلِ الْمُبَاحِ، فَيَضْمَنُ قِيمَةَ الْحَفْرِ وَ يُحْمَلُ سُكُوتُهُ عَنْ الضَّمَانِ فِي صُورَةِ الْوَقْفِ عَلَيْهِ اهـ أَيْ عَلَى الضَّمَانِ فِي الْمُبَاحِ، وَ فِي حَاشِيَةِ أَبِي السُّعُودِ عَنْ حَاشِيَةِ الْمَقْدِسِيَّ، وَ هَذَا لَوْ وُقِفَتْ لِلدَّفْنِ، فَلَوْ عَلَى مَسْجِدٍ لِلزَّرْعِ وَ الْغَلَّةِ فَكَالْمَمْلُوكَةِ، تَأَمَّلْ اهـ."

( كتاب الغصب، مَطْلَبٌ فِي لُحُوقِ الْإِجَازَةِ لِلْإِتْلَافِ وَالْأَفْعَالِ فِي اللُّقَطَة، ٦ / ١٩٩، ٢٠٠، ط: دار الفكر)

شرح عمدة الأحكاممیں ہے:

"بخلاف ما إذا دفن ميت في المسجد، أو بني مسجد على قبر فلا بد من أن يكون الحكم للسابق منهما، إن كان الميت دفن في المسجد ينبش و يخرج، وإن كان المسجد بني على القبر يهدم."

( كتاب الجنائز،  ١٩ / ٢٢)

موسوعة الفقه الاسلامي میں ہے:

"حكم دفن الميت في المسجد:

السنة دفن المسلم في المقبرة، و يحرم دفن الميت في المسجد، وإذا دُفن المسلم في المسجد فإنه ينبش ويدفن في المقبرة."

( الباب العاشر العبادات، كتاب الجنائز، دفن الميت، ٢ / ٧٨١، ط: بيت الأفكار الدولية)

3۔ اگر قبر نمازی کے سامنے نہ ہو یا نمازی اور قبر کی درمیان دیوار حائل ہو  تو نماز ادا ہوجائے گی، بشرطیکہ قبر یا صاحبِ قبر کو سجدہ کرنے یا اس کی عبادت کی نیت نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں