بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں صدقہ کی رقم لگانا


سوال

ہمارے یہاں (میوات) میں ہر جمعرات کو مغرب کی نماز کے بعد مساجد میں پیسوں کی وصولی ہوتی ہے، جس کی مکمل صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص 100 روپے لے کر مسجد میں حاضر ہوا، تو مسجد کے مائک میں امام صاحب یا مؤذن صاحب یہ اعلان کرتے ہیں کہ "فلاں صاحب نے سو روپے دیے ہیں اپنے مرحوم دادا اور دادی کے نام سے" پھر تھوڑی دیر بعد کوئی دوسرا شخص آتا ہے 50 روپے لے کر آئے تو پھر مائک میں اعلان کیا جاتا ہے کہ " فلاں صاحب نے پچاس روپے دیے ہیں اپنے مرحوم نانا اور نانی کے نام سے" پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں، اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے عشاء کی اذان تک۔ جو بھی آتا ہے وہ اپنے مرحومین کے نام سے پیسے دیتا ہے اور مؤذن صاحب اعلان کر کے اس کے مرحومین کو دعائیں دیتا ہے اور پیسے جمع کرلیتا ہے۔

واضح رہے کہ اس میں بعض لوگ مسجد کی امداد کے نام سے بھی پیسے دیتے ہیں جن کو مؤذن مرحومین کے نام سے آئے ہوئے پیسوں میں ہی خلط کردیتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس طرح مرحومین کے نام سے پیسے وصول کرکے مسجد کے اخراجات (امام کی تنخواہ یا، دیگر مسجد کی ضروریات) میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

2 ۔۔ مسجد کی امداد کے نام سے پیسے اور مرحومین کے نام سے آئے ہوئے پیسے دونوں کو خلط کرنا کیسا ہے؟

3۔۔ اس طرح اعلان کر نا از روئے شریعت کیسا ہے؟

امید ہے کہ مذکورہ سوالات کے قرآن و حدیث کی روشنی میں تشفی بخش جوابات دیے جائیں گے!

جواب

1- مسجد کے انتظامی امور کے اخراجات نفلی صدقات سے پورے کرنا جائز ہے، صدقاتِ واجبہ مسجد میں استعمال نہیں ہوسکتے؛ لہذا اگر لوگ اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے مسجد میں صدقہ دیتے ہیں تو یہ نفلی صدقہ ہوتاہے، یہ رقم مسجد  میں خرچ کی جاسکتی ہے، اس سے امام، مؤذن کی تنخواہیں اور دیگر ضروریات میں خرچ کرنا شرعًا جائز ہے۔ فدیہ، کفارے، منت اور زکات کی رقم وصول کرکے مسجد میں لگانا شرعًا جائز نہیں۔

2- مسجد کی امداد کے پیسے اگر دینے والے نے کسی مصرف کو خاص کر کے نہ دیے ہوں تو انہیں صدقہ کی رقم سے ملاکر رکھا جاسکتاہے، لیکن اگر دینے والا کسی خاص مصرف کو متعین کردے تو اس رقم کو اسی مصرف میں استعمال کرنا ضروری ہے۔

3- مسجد میں اس طرح اعلان کرنا مناسب نہیں ہے، نیز صرف جمعرات کے دن بعد مغرب کا وقت متعین کرنا بھی مناسب نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مسجد میں چندے کی ضرورت ہے تو جمعے وغیرہ کے اجتماع کے موقع پر چندے کے اَحکام کی رعایت رکھ کر چندہ کرلیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں