بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں اونچی آواز سے تلاوت کرنا، موبائل استعمال کرنا اور کرسی پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟


سوال

1- مسجد میں نماز اور دیگر تسبیحات وغیرہ اتنی اونچی آواز سے پڑھنا کہ پوری مسجد میں آواز گونجنے لگے اور دوسرے نمازیوں کو تکلیف بھی ہو تو ایسا عمل کیا شرعاً درست ہے؟  

2- مسجد میں بلا ضرورت موبائل کا اس طور پر استعمال کرنا کہ اس میں گانے والی ٹون لگی ہو یا کمپنی کی جانب سے کوئی گانے والی ٹون لگی ہو کہ برابر میں کھڑے نمازی کو اس کی آواز بھی آتی ہو اور دیگر نمازی بھی تنگ ہوتے ہوں تو کیا یہ عمل بھی شرعاً درست ہے؟

3- کرسی پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

1- مسجد میں نماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی کے وقت آواز ہلکی رکھنی چاہیے کہ بس پڑھنے والا خود سن لے، اتنے زور سے تلاوت، تسبیحات اور ذکر کرنا کہ نمازیوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہو مکروہ ہے، ایسے عمل سے احتراز لازم ہے۔

2- درست نہیں۔

3- کرسی پر نماز پڑھنے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ:

جو شخص کسی بیماری کی وجہ سے  کھڑے ہونے پر قادر نہیں یا کھڑے ہونے پر  تو قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں یا قیام و سجود کے ساتھ نماز  پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت شدید قسم کا درد ہونے کا غالب  گمان ہو تو ان صورتوں میں ایسا شخص کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے،   کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز  نہیں، زمین پر سجدہ کرنے اور قیام پر قدرت ہونے کی صورت میں اگر فرض و واجب نماز میں قیام ترک کیا تو نماز ادا نہیں ہوگی۔

اسی طرح فرض نماز  میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے تو ایسے شخص کے لیے اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے اگرچہ کسی چیز کا سہارا لینا پڑے، اس کے بعد وہ بقیہ نماز بیٹھ کر پڑھ سکتاہے، پھر اگروہ زمین پر سجدہ کرسکتاہو تو زمین پر بیٹھ کرنماز پڑھے اور اگر زمین پر بیٹھنے میں اسے ناقابلِ برداشت تکلیف ہو تو  کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔

اسی طرح جو  شخص قیام پر تو قادر ہو،  لیکن کمر یا گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو ایسے شخص سے بھی قیام ساقط ہوجاتا ہے۔

البتہ جو شخص قیام پر تو قادر نہیں، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر ہے تو اس کے لیے اشارہ سے سجدہ کرنا جائز نہیں، ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر باقاعدہ سجدے کے ساتھ نماز ادا کرے، صرف اشارے سے  سجدہ کرنا کافی نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ."

(ج:1، ص:660، کتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة و مايكره فيها، مطلب في رفع الصوت بالذكر، ط:سعيد)

وایضاً:

"(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضرر به يفتى (قبلها أو فيها) أي الفريضة (أو) حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا) أو كان لو صلى قائما سلس بوله أو تعذر عليه الصوم كما مر (صلى قاعدا) ولو مستندا إلى وسادة أو إنسان، فإنه يلزمه ذلك على المختار، (كيف شاء) على المذهب، لأن المرض أسقط عنه الأركان فالهيئات أولى. وقال زفر: كالمتشهد، قيل: وبه يفتى (بركوع وسجود وإن قدر على بعض القيام) ولو متكئا على عصا أو حائط (قام) لزوما بقدر ما يقدر ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب، لأن البعض معتبر بالكل، (وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما، لقربه من الأرض، (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوما. "

(ج:2، ص:95 تا 98، كتاب الصلاة، باب صلاة المريض، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144306100201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں