بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں نئے تعمیرات اور اِمام مسجد کی گھر میں توسیع کرنے کا حکم


سوال

 ضرورت کے تحت ہمارے علاقہ میں واقع مسجد و مدرسہ میں تعمیراتی کام کرایا گیا ،جیسے  مدرسہ کے اوپروالی منزل میں طلباء کرام کی رہائش کے لیے کمرے تعمیر کیے، اور مسجد کی چھت پر مزیدایک ہال تعمیر کرایا ،البتہ وضوخانہ کے اُوپر پہلے سے اِمام صاحب کی فیملی رہائش گاہ موجود ہے ، اِمام مسجد عرصہ  تیس (30) سال سے  یہاں امامت،خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، فیملی کے افراد زیادہ ہونے کی وجہ سے مسجد انتظامیہ کمیٹی نے مسجدکی موجودہ رہائش کے اُوپر چار کمرے اور با تھ روم تعمیر کرانے کا کام شروع کیا ،یہ تعمیراتی کام اہل خیر حضرات کے چندے سے ہو رہا ہے ، الحمدللہ آج تک انتظامی کمیٹی پر کسی اہل خیر میں سے کسی قسم کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا ،لیکن دو چار افراد مدرسےاور مسجد کی موجودہ تعمیرات پر پہلے دن سے اعتراضات کر رہے ہیں ، اور وہ اس کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں بتا رہے ہیں، اس کار خیر کی بغیر کسی دلیل کےمخا لفت کر رہے ہیں ، حالاں کہ ان افراد میں سے کسی ایک فرد نے  بھی ان تعمیرات میں کسی قسم کا حصہ نہیں ملایا ہیں۔

1:سوال یہ عرض ہیکہ ، کیا ضرورت کے تحت یہ تعمیرات کرنا شرعاً ناجائز ہے ؟ 

2: کیا امام صاحب دامت بر کا تم العالیہ کی رہائش کا ضرورت کے تحت تیس(30) سال بعد اہل خیر حضرات اور انتظامیہ کمیٹی کی رضا مندی سے توسیع کر سکتا ہے ؟

3:مسجد اورمد ر سے  کی آبادکاری میں کمیٹی کا معاون بننا چاہیے،یا مخالف؟

جواب

1ضرورت کے تحت تعمیرات  کرنا جائز  ہیں۔

2: امام  مسجد کی رہائش کا ضرورت کے تحت تیس(30) سال بعد  انتظامیہ کمیٹی کی رضا مندی سے توسیع کر نا درست ہے،مسجد کی آمدن مصالحِ  مسجد کے لیے ہے،  اور امامِ  مسجد کے لیے گھر  بنانا بھی مصالحِ  مسجد میں شامل ہے،لہذامسجد کےامام کے گھر بنانے میں  یا توسیع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

3:مسجد اورمد ر سے  کی آبادکاری میں کمیٹی کا معادن بننا چاہیے،کیوں کہ  بھلائی کے کاموں پر رہنمائی کرنے والا بھی  بھلائی کرنے والے کے طرح ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

" وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى."[المائدة: 2]

ترجمہ: "اور ایک دوسرے کی نیک کام اور پرہیزگاری میں مدد کیا کرو۔"

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ‌أبي مسعود الأنصاري قال: « جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إني أبدع بي فاحملني. فقال: ما عندي. فقال رجل: يا رسول الله، أنا أدله على من يحمله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌دل ‌على ‌خير فله مثل أجر فاعله .»"

(‌‌‌‌كتاب الأدب، باب في الدال على الخير، ج:4، ص:333، ط: المكتبة العصرية)

صحیح مسلم میں ہے:

"« أنه سمع ‌عثمان بن عفان عند قول الناس فيه حين بنى مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم إنكم قد أكثرتم وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من بنى مسجدا لله تعالى - قال بكير: حسبت أنه قال: يبتغي به وجه الله - بنى الله له ‌بيتا ‌في ‌الجنة». وقال ابن عيسى في روايته: مثله في الجنة."

(‌‌‌‌كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل بناء المساجد والحث عليها، ج:2، ص:68، ط: دار الطباعة العامرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر...........(قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة،وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح".

(‌‌كتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا، ج:4، ص:367، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102731

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں