بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں نماز کے مقرر وقت سے پہلے چند لوگوں کا جماعت سے نماز ادا کرنا


سوال

مسجد میں نماز کا وقت جو مقرر ہے اس سے پہلے اگر کوئی صاحب جماعت سے نماز پڑھ لیں تو مقرر وقت کی جماعت ہوگی یا نہیں جبکہ مسجد میں کوئی خارجی حصہ نہیں ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ مسجد   محلہ کی مسجد  ہو ،  اس میں  امام ، مؤذن  متعین اور نمازی معلوم ہوں تو اس کی حدود میں  امامِ مسجد کی جماعت سے پہلے چند لوگوں کا الگ جماعت کرنا شرعاً درست نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرنے سے منع فرمایا ہے،  ان لوگوں کی نماز کے بعد  اہل محلہ کا مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز کے مقرر اوقات میں جماعت سے نماز ادا کرنا جائز ہوگا۔

البتہ اگر  مذکورہ مسجد  محلہ کی نہ ہو بلکہ  راستہ کی مسجد ہو ، جہاں راہ گزر آتے جاتے نمازیں پڑھتے ہیں تو  ایسی صورت میں اس مسجد میں  ایک سے زائد جماعت کروانایا  مسجد کے مقررہ وقت سے پہلے نماز ادا کرنا مکروہ  نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر.  والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ". 

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 1/ 552، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌فإن ‌كان ‌له ‌أهل ‌معلوم: ‌فإن ‌صلى ‌فيه ‌غير ‌أهله ‌بأذان ‌وإقامة ‌لا ‌يكره ‌لأهله ‌أن ‌يعيدوا ‌الأذان ‌والإقامة، ‌وإن ‌صلى ‌فيه ‌أهله ‌بأذان ‌وإقامة، ‌أو ‌بعض ‌أهله ‌يكره ‌لغير ‌أهله ‌وللباقين ‌من ‌أهله ‌أن ‌يعيدوا ‌الأذان ‌والإقامة"۔

(کتاب الصلاۃ،1/ 153، ط:سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال: امامِ مسجد جب کہ وقتِ مستحب پر نماز پڑھتا ہو تو اس سے پہلے مسجد میں جماعت کرلینا کیسا ہے؟ اور جو امام سے پہلے نماز پڑھا دے اس کی امامت کیسی ہے؟

جواب: امامِ مسجد سے پہلے جماعت کرلینا ناجائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے حدیث شریف میں ہے"ولا يؤم الرجل الرجل في سلطانه"شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اشعۃ اللمعاب میں فرماتے ہیں"پس تقدم نکند بروالی۔۔۔یعنی بادشاہ اور اس کے نائبوں اور امامِ مسجد اور صاحبِ خانہ کی امامت کے مواقع میں بغیر ان کی اجازت کے امامت ہرگز نہ کرنی چاہیے کیوں کہ اس سے ہیبتِ سلطنت میں نقصان واقع ہوگا اور آپس میں بغض ونفاق پیدا ہوگا حالاں کہ جماعت انہیں باتوں کو دفع کرنے کے لیے مشروع ومقرر ہوئی ہے، ترمذی شریف میں ہے"لايؤم الرجل في سلطانه"(الحديث) ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے، صاحبِ مجمع البحار لکھتے ہیں:  "في سلطانه أي في موضع يملكه أو يتسلط عليه بالتصرف كصاحب المجلس وإمام المسجد فإنه أحق به من غىره وإن كان أفقه، إنتهى" اور صاحبِ منزل اور امامِ مسجد  کی اجازت پر بھی بعض صحابہ امامت نہیں کرتے تھے، مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ کا قصہ ترمذی میں موجود ہے کہ باجودِ اجازت کے انہوں نے نماز نہ پڑھائی اور حدیث متقدم کو دلیل میں پیش کیاپس بمقتضائے فرمانِ واجب الاذعان پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم امامِ مسجد سے پہلے نماز پڑھنے والے گناہ گار ہیں کیوں کہ اس کی موجودگی میں جب ان کو نماز پڑھنا ممنوع ہے تو اس سے قبل اس کی جماعت کو متفرق کرنا اور اختلاف پیدا کردینا تو سخت ممنوع ہونا چاہیے اسی واسطے فقہانے لکھا ہے کہ امامِ راتب سے پہلے جماعت کرنے والوں کی جماعت مکروہ ہوگی کیوں کہ اقامتِ جماعت کا حق اسی کو ہے ، واللہ اعلم بالصواب۔"

(تتمہ نوٹ از واصف، متعلقہ کتاب الصلوٰۃ، تیسرا باب فصل دوم، امامِ مسجد سے پہلے مسجد میں جماعت کرانے والا گناہ گار ہے، ج:9، ص:441، ط: دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100883

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں