بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں مصافحہ کرنا


سوال

مسجد میں مصافحہ کرنے کے بارے میں رہنمائی فرمائیں

جواب

واضح رہے کہ مصافحہ ملاقات کے وقت مسنون ہے، جیسا کہ سنن الترمذي (5 / 74)میں ہے:
"عن البراء بن عازب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل أن يفترقا. قال أبو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث أبي إسحاق عن البراء".

(ترجمہ) جب دو مسلمان مل کر باہم مصافحہ کریں تو ان کے جدا ہونے سے قبل ہی ان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

لہذا اگر کسی کی ملاقات مسجد میں ہوجائے اور اس سے مسجد میں مصافحہ کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے، البتہ نمازوں کے بعد مصافحے کا التزام کیا جائے یا نماز کے متصل بعد اسے ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے اور نماز کے بعد مصافحہ نہ کرنے والے کو  ملامت کا نشانہ بنایا جائے تو یہ مصافحہ بدعت ہے۔  جیساکہ  حاشية رد المحتار على الدر المختار  (6 / 381):
"ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط: أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم ما صافحوا بعد أداء الصلاة؛ ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولًا ويعزر ثانيًا، ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل: إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات، فحيث وضعها الشرع يضعها، فينهي عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ ثم أطال في ذلك فراجعه".

نیز فتاوی رحٰیمیہ(۲ /۲۲۸،کتاب السنۃ والبدعۃ) میں ’’مصافحہ بعد نماز‘‘  کا جواب لکھتے ہوئے آخر میں لکھا ہے:

’’بہرحال اصل مسئلہ یہی ہے، البتہ لوگوں کے حالات بہت نازک ہوچکے ہیں، مزاج بگڑچکے ہیں، بات بات پر لڑائیاں ہوتی ہیں، بدگمانیاں پھیلتی ہیں، لہذا رفعِ فتنہ کے طور علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی مصافحہ کے  لیے ہاتھ بڑھائے تو اپنا ہاتھ کھینچ کر ایسی صورت پیدا نہ کرنا چاہیے کہ اسے بدگمانی ، شکایت اور رنج ہو‘‘۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

مصافحہ کی شرعی حیثیت


فتوی نمبر : 144109202833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں