بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں محراب کس دور میں بننا شروع ہوئی؟


سوال

مسجد میں محراب کس دور میں بننا شروع ہوئی؟

جواب

مساجد  میں محراب کا ثبوت نبی پاک  ﷺ  اور صحابہ کرام کے  زمانہ سے ملتا ہے ۔ملاحظہ ہو:

سنن بیہقی میں ہے:

"2335 - أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد الصوفي، أنبأ أبو أحمد بن عدي الحافظ، ثنا ابن صاعد، ثنا إبراهيم بن سعيد، ثنا محمد بن حجر الحضرمي، حدثنا سعيد بن عبد الجبار بن وائل، عن أبيه، عن أمه، عن وائل بن حجر قال: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أو حين نهض إلى المسجد فدخل المحراب، ثم رفع يديه بالتكبير، ثم وضع يمينه على يسراه على صدره ."

(السنن الكبرى للبيهقي (2 / 46)،  باب وضع اليدين على الصدر في الصلاة من السنة،  الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنات)

عون المعبود میں ہے :

"قلت:  ما قاله القارىء من أن المحاريب من المحدثات بعده صلى الله عليه وسلم فيه نظر؛ لأن وجود المحراب زمن النبي صلى الله عليه وسلم يثبت من بعض الروايات أخرج البيهقي في السنن الكبرى من طريق سعيد بن عبد الجبار بن وائل عن أبيه عن أمه عن وائل بن حجر قال: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم نهض إلى المسجد فدخل المحراب ثم رفع يديه بالتكبير الحديث.

وأم عبد الجبار هي مشهورة بأم يحيى كما في رواية الطبراني في معجم الصغير.

وقال الشيخ ابن الهمام من سادات الحنفية: و لايخفى أن امتياز الإمام مقرر مطلوب في الشرع في حق المكان حتى كانالتقدم واجبا عليه وبنى في المساجد المحاريب من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم . انتهى."

\r\n

(عون المعبود، ۲/۱۰۴ ، باب فی کراہیۃ البزاق فی المسجد، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت)

فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ دور ِ نبوی  میں محراب کا وجود تھا،  نیز اس حدیث کا مؤید بھی موجود ہے۔

معجم کبیر میں ہے:

"5726 - حدثنا موسى بن هارون، ثنا إسحاق بن راهويه، ثنا عبد المهيمن بن عباس بن سهل بن سعد، حدثني أبي، عن جدي قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل أن يبني المسجد يصلي إلى خشبة، فلما بنى المسجد، بنى له محراب، فتقدم إليه فحنت الخشبة حنين البعير، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده عليها فسكنت».

(المعجم الكبير للطبراني (6 / 126)، روایات العباس بن سهل بن سعد عن أبيه، دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

نصب الرایہ میں ہے :

"وَلَمَا اسْتَمَرَّ عَمَلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي مِحْرَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَامِهِ عَلَى تَرْكِ الجهر، يتوارثه آخِرُهُمْ عَنْ أَوَّلِهِمْ، وَذَلِكَ جَارٍ عِنْدَهُمْ مَجْرَى الصَّاعِ وَالْمُدِّ، بَلْ أَبْلَغُ مِنْ ذَلِكَ."

(نصب الرایۃ ۱/۳۳۳۔ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ۔ الناشر: مؤسسة الريان للطباعة والنشر - بيروت -لبنان)

(و كذا في تحفۃ الاحوذی ۲/۵۰،  (باب ما جاء من رأى الجهر ببسم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت)

فتح القدیر میں ہے :

"(قوله: في الطاق) أي المحراب … ولا يخفى أن امتياز الإمام مقرر مطلوب في الشرع في حق المكان حتى كان التقدم واجبا عليه، وغاية ما هنا كونه في خصوص مكان، ولا أثر لذلك فإنه بني في المساجد المحاريب من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولو لم تبن كانت السنة أن يتقدم في محاذاة ذلك المكان لأنه يحاذي وسط الصف وهو المطلوب، إذ قيامه في غير محاذاته مكروه، وغايته اتفاق الملتين في بعض الأحكام."(فتح القدیر۱/۴۱۳)

عمدۃ القاری میں ہے :

"وذکر أبو البقاء أنّ جبریل علیه السلام وضع محراب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسامت الکعبة."

(عمدۃ القاری۴/۱۲۶باب فضل استقبال القبلۃ)

علامہ عینیؒ فرماتے ہیں : حضرت جبرئیل ںنے آکر کعبہ کی جہت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محراب بنائی تھی ۔

علامہ عینیؒ کی تحقیق سے بھی پتہ چلتا ہے کہ محرابیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبار ک میں موجود تھیں ۔

فتاوی قاضی خان میں ہے :

"وجهة الکعبة تعرف بالدلیل و الدلیل في الأمصار و القری المحاریب التي نصبتها الصحابة و التابعون رضي اللّٰہ عنهم."

(فتاوی قاضی خان ۱ / ۶۹)

مبسوط میں ہے :

"ومعرفة الجهة إما بدليل يدل عليه أو بالتحري عند انقطاع الأدلة فمن الدليل المحاريب المنصوبة في كل موضع لأن ذلك كان باتفاق من الصحابة - رضي الله عنهم - ومن بعدهم."

(المبسوط للسرخسی۱۰/۱۹۰)

(کذا فی حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص 1/212)

بحر میں ہے :

"والدلیل في الأمصار والقری المحاریب التي نصبتها الصحابة و التابعون فعلینا اتباعهم في استقبال المحاریب المنصوبة."

(البحر الرائق۱/۲۸۵، و هکذا في الهندیة ۱/۶۳)

احادیث اور فقہی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ محرابیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور صحابہ کرام کے زمانہ میں موجود تھیں،  البتہ بعض روایات میں آتا ہے کہ عمر بن عبد العزیزؒ نے اس کا آغاز فرمایا۔ ملاحظہ ہو:

"حدیث عبد المهیمن بن عباس یقول فیه: لم یکن لمسجد النبي صلی اللہ علیه وسلم محراب في زمنه ثم أحدثه عمر بن عبد العزیز."

(مقدمات الامام الکوثری ص ۴۲۶)

اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں عبد المہیمن بن عباس ضعیف راوی ہے؛  لہذا یہ روایت ضعیف ہے،  اور  خود عبد المہیمن بن عباس کی دوسری روایت ثبوتِ محراب کی بھی ہے جو طبرانی کے حوالہ سے گزر گئی؛  لہذا دونوں میں تطبیق اس طرح ہو گی :

"والواقع أنّ المحراب کان موجوداً و الذي زاد فیه عمر بن عبد العزیز أیام إمرته بالمدینة المنورة سنة ۸۳  هو التجویف البالغ في المحراب ."

( مقدمات الامام الکوثری ص ۴۲۶)

یعنی عہد مبارک میں محراب موجود تھی لیکن غیر مجوّف تھی اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے مجوّف بنائی اس میں مبالغہ کے ساتھ ؛ لہذا دونوں روایتوں میں تطبیق کی یہ صورت بہت اچھی ہے ۔

(مستفاد: فتاویٰ دار العلوم زکریا،ج۱، ص 595)،  ط: زمزم) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں