بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں مدرسہ قائم کرکے بچوں سے فیس لے کر پڑھانے کا حکم


سوال

اگر مسجد میں مدرسہ قائم ہو،اور وہاں بچوں سے فیس لے کر ان کو پڑھایا جاتاہو ، تو ایسے مدرسہ میں فیس لے کر پڑھانا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسجد میں مدرسہ قائم کرکے بچوں سے فیس لے کر انہیں تعلیم دینا شرعاً مکروہ ہے،البتہ اگرمدرسہ کی اخراجات و  ضروریات کا کوئی انتظام نہ ہو اور فیس لیے بغیر مدرسہ کا نظام چلانا ممکن نہ  ہو تو اس صورت میں فیس لےکر مسجد میں پڑھانے کی گنجائش ہے، تاہم  مدرسہ انتظامیہ کو چاہیے کہ جلد از جلد کسی دوسری جگہ کا بندوبست کرکے مدرسہ کو وہاں منتقل کردیں ۔

فتاوی قاضی خان میں ہے :

’’ويكره أن يخيط في المسجد لأنه أعد للعبادة دون الإكتساب وكذا الوراق والفقيه إذا كتب بأجرة أو معلم إذا علم الصبيان بأجرة. وإن فعلوا بغير أجر فلا بأس به۔‘‘

(کتاب الطہارۃ، فصل فی المسجد ،ج: ۱،ص:۴۳،ط:زکریا جدید)

فتاوی شامی میں ہے :

’’قلت: بل في التتارخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد، فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة۔‘‘

(فرع یکرہ اعطاء سائل المسجد، ج:۶، ص:۴۲۸ ،ط:سعید)

فتاوی بزازیہ میں ہے :

’’معلم الصبیان بأجر لو جلس فیہ لضرورۃ الحر لا بأس بہ، وکذا التعلیم  إن بأجر کرہ إلا للضرورۃ وإن حسبۃ لا۔‘‘

(بزازیۃ علی ہامش الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ،ج: ،۴ص:۸۲،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں