بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں بھولے سے دو اذانیں ہونے پر یہ کہنا کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے ہیں


سوال

۱۔ اگر کسی مسجد میں دو اذانیں بھول کر دے دی جائیں تو لوگ کہتے ہیں کہ آج مسجد میں حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے ہیں کیا یہ بات درست ہے ؟

۲۔نیز کیا اب بھی حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں؟

جواب

۱۔مسجد میں بھولے سے دو اذانیں ہونے پر یہ کہنا کہ آج مسجد میں حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے ہیں ،اس کی شرعا کوئی  اصل نہیں ۔

۲۔محدثین کی ایک جماعت حضرت خضر علیہ السلام کی  اس وقت دنیوی حیات کا انکار کرتی ہے،  جب کہ جمہور اہل علم  اور اہل تصوف    فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ   ہیں اور  بعض اوقات اللہ جل شانہ  کے حکم سے اس کے بندوں کی مدد بھی کرتے ہیں ،اس اختلاف سے قطع نظر اصل بات یہ ہے کہ  حضرت خضر علیہ السلام  کی حیات اور  موت سے  ہمارا کوئی اعتقادی یا علمی مسئلہ متعلق نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے،  اس لیے کہ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ علماءِ امت میں اس بارے میں اختلاف ہے،شریعتِ مطہرہ نے ہمیں آخرت کی تیاری اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودگی کے حصول کی جستجو کا پابند کیا ہے، کسی ایسے کام کی جستجو کی ترغیب نہیں دی ہے  کہ جس سے دنیا و آخرت میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہ ہو۔،لہذا ایسے باتوں میں پڑنے کے بجائے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے ۔

وفي شرح النووي على مسلم: 

"جمهور العلماء على أنه حي موجود بين أظهرنا وذلك متفق عليه عند الصوفية وأهل الصلاح والمعرفة وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به والأخذ عنه وسؤاله وجوابه ووجوده في المواضع الشريفة ومواطن الخير أكثر من أن يحصر وأشهر من ان يستر وقال الشيخ ابو عمر بن الصلاح هو حي عند جماهير العلماء والصالحين والعامة معهم في ذلك قال وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين."

(كتاب الفضائ,لباب من فضائل الخضر صلى الله عليه وسلم,15/ 135الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

وفي فتح الباري لابن حجر:

" وقال بن الصلاح هو حي عند جمهور العلماء والعامة معهم في ذلك وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين وتبعه النووي وزاد أن ذلك متفق عليه بين الصوفية وأهل الصلاح وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به أكثر من أن تحصر انتهى ."

 (كتاب بدء الخلق, باب حديث الخضر مع موسى عليهما السلام,6/ 434الناشر: دار المعرفة - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں