ایک تو قسم ہے چاہے وہ کسی بھی حوالے سے ہو، لیکن آج کل ایک اور مسئلہ بہت ہے، جو بھی ثالثی کرتا ہے وہ یہ فیصلہ سناتا ہے کہ ہم نے جو فیصلہ کیا وہ آپ مسجد میں بیٹھ کر یا مسجد پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ یہ فیصلہ میں نے مان لیا ہے، اب فیصلہ تو مان لیا، لیکن خدانخواستہ ایسی کوئی بات منہ سے نکلی یا ایسی کوئی چیز جس کا علم بھی نہ ہو تو مسجد کا کفارہ کیا ہوگا جو ادا کیا جائے؟
مسجد میں بیٹھ کر اگر قسم اٹھائی جائے تو اس کی مخالفت کی وجہ سے بھی وہی کفارہ لازم ہوگا جو عام قسم کا ہوتاہے، لیکن اگر قسم کے الفاظ نہیں کہے صرف مسجد میں بیٹھ کر یا مسجد کو ہاتھ لگا کر بات کی ہے اور پھر اس کی خلاف ورزی ہوجائے تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا، البتہ جب شریعت کے اَحکام کے مطابق فیصلہ ہوجائے اور اسے تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر اس کو نبھایا جائے، مخالفت نہ کی جائے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202200732
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن