بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں اذان کے دوران تلاوت اور نماز کا حکم


سوال

 اذان کے دوران مسجد میں نوافل یا سنت یا تلاوت کرنے میں کوئی حرج ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ زبان سے  اذان کا جواب دینا مستحب ہے ، اور عملی جواب واجب ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرکوئی شخص پہلے سے  مسجد میں تلاوت میں مشغول ہو  اور اذان ہونے لگے تو اسے اختیار ہے، چاہے تلاوت جاری رکھے، چاہے بند کر کے اذان کا جواب دے، تلاوت جاری رکھتے ہوئے زبان سے اذان کا جواب نہ دینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے، اور تلاوت بند کر کے اذان کا جواب دینے میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے، البتہ افضل اور مستحب یہی ہے کہ تلاوت بند کرکے اذان کا جواب دے، اور اگر پہلے سے تلاوت شروع نہ کی ہو اور اذان شروع ہوجائے تو اذان کا جواب دینا چاہیے، اذان مکمل ہونے کے بعد تلاوت شروع کی جائے،

اور اگر نماز(نفل،سنت وغیرہ)شروع  کرچکا ہے اور اس دوران اذان ہوجائے تونوافل جاری رکھے،ورنہ اذان ختم ہونے کے بعد نوافل شروع کرے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولا ينبغي أن يتكلم السامع ‌في ‌حال ‌الأذان والإقامة، ولا يشتغل بقراءة القرآن، ولا بشيء من الأعمال سوى الإجابة، ولو كان ‌في القراءة ينبغي أن يقطع ويشتغل بالاستماع والإجابة، كذا قالوا ‌في الفتاوى."

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يجب على السامعين عند ‌الأذان، ج:1، ص:383، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتح القدیر میں ہے:

"‌ولو ‌كان ‌في ‌المسجد فليس عليه أن يجيب باللسان. حاصله: نفي وجوب الإجابة باللسان، وبه صرح جماعة وأنه مستحب  قالوا إن قال نال الثواب الموعود وإلا لم ينل، أما أنه يأثم أو يكره فلا."

(باب الأذان، ج: 1، ص:248، ط:دار الفكر)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"‌وإذا ‌سمع ‌المسنون منه" أي الأذان وهو ما لا لحن فيه ولا تلحين "أمسك" حتى عن التلاوة ليجيب المؤذن ولو في المسجد وهو الأفضل وفي الفوائد يمضي على قراءته إن كان في المسجد ."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الأذان، ص:202، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو كان في المسجد حين سمعه ليس عليه الإجابة، ولو كان خارجه أجاب) بالمشي إليه (بالقدم، ولو أجاب باللسان لا به لا يكون مجيبا) وهذا (بناء على أن الإجابة المطلوبة بقدمه لا بلسانه) كما هو قول الحلواني، وعليه (‌فيقطع ‌قراءة ‌القرآن لو) كان يقرأ (بمنزله، ويجيب) لو أذان مسجده كما يأتي (ولو بمسجد لا)لأنه أجاب بالحضور...(قوله: ولو بمسجد لا)أي لا يجب قطعها بالمعنى الذي ذكرناه آنفا."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الأذان، ج:1، ص:390، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"أخرج الإمام أبو جعفر الطحاوي في كتابه شرح الآثار بسنده إلى «عبد الله - رضي الله عنه - قال كنا مع النبي - صلى الله عليه وسلم - في بعض أسفاره فسمع مناديا وهو يقول: الله أكبر الله أكبر، فقال - صلى الله عليه وسلم - على الفطرة، فقال أشهد أن لا إله إلا الله، فقال - صلى الله عليه وسلم - خرج من النار» " فابتدرناه فإذا صاحب ماشية أدركته الصلاة فنادى بها. قال أبو جعفر: فهذا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال غير ما قال المنادي، فدل أن الأمر للاستحباب والندب كأمره بالدعاء في أدبار الصلوات ونحوه اهـ فهذه قرينة صارفة للأمر عن الوجوب، وبه تأيد ما صرح به جماعة من أصحابنا، من عدم وجوب الإجابة باللسان وأنها مستحبة. وهذا ظاهر في ترجيح قول الحلواني، وعليه مشى في الخانية والفيض."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الأذان، ج:1، ص:399، ط:سعيد)

آپ کے مسائل اور ان کے حل میں ہے:(3/309)

"دورانِ اذان تلاوت کرنا یا نماز پڑھنا

س… دورانِ اذان قرآنِ  مجید کی تلاوت یا نماز پڑھنا دُرست ہے؟

ج… قرآنِ مجید بند کرکے اذان کا جواب دینا  چاہیے، اور اگر نماز پہلے سے شروع کر رکھی ہو تو پڑھتا رہے، ورنہ اذان ختم ہونے کے بعد شروع کرے۔"

(ج:3 ، ص:309)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144409101595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں