بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں آرام کرنے کا حکم


سوال

ہمارے یہاں جو مسجد  ہے وہ بازار کی مسجد ہے،  کچھ لوگ ظہر کے نماز کے بعد اس مسجد میں  آرام کرتے ہیں،  ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ 

جواب

واضح رہے  کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، اس طرح کے کاموں(سونے وغیرہ) کے لیے نہیں ہے، لہذا  عام حالات میں مسافر  اور معتکف کے علاوہ دیگر افراد کے لیے مسجد میں کھانا،  پینا اور سونا مکروہ ہے، مسافر اور معتکف کے لیے مسجد میں کھانے،  پینے اور سونے کی اجازت ہے۔ 

لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

" وقد ذكر في كتب الفقه أنه يكره ‌لغير ‌المعتكف الأكل والشرب والنوم إلا لغريب لا يجد مأوى من غير المسجد، وقال بعض المشايخ: ينبغي للمرء إذا دخل المسجد أن ينوي الاعتكاف ولو ساعة."

(كتاب الأطعمة، الفصل الثاني، ج:7، ص:260، ط:دار النوادر)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ويكره النوم والأكل فيه ‌لغير ‌المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية.

 ولا بأس للغريب ولصاحب الدار أن ينام في المسجد في الصحيح من المذهب، والأحسن أن يتورع فلا ينام، كذا في خزانة الفتاوى."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:321، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"يكره النوم والأكل في المسجد ‌لغير ‌المعتكف وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب الاعتكاف، ج:2، ص:448، ط:سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال: مسجد میں بستی کا کوئی شخص یا مسافر آرام کرسکتا ہے یا نہیں، یا جماعتیں اکثر آیاکرتی ہیں، یہ آرام کرسکتی ہیں یا نہیں؟

الجواب حامداً وامصلیاً

مسجد نماز کی جگہ ہے، سونے اور آرام کرنےکی جگہ نہیں ہے، جو مسافر پردیسی ہو، یا کوئی معتکف ہو، اس کے لیے گنجائش ہے، جماعتیں عموماً پردیسی ہوتی ہیں، یا پھر رات کو رِہ کر تسبیح ونوافل میں بیشتر مشغول رہتی ہیں، کچھ آرام بھی کرلیتی ہیں، اس طرح اگر ان کے ساتھ مقامی آدمی بھی شب گزاری کریں تو نیتِ اعتکاف کرلیا کریں۔ فقط واللہ اَعلم۔"

(کتاب الوقف، باب آداب المسجد، مسجد میں سونے اور ٹہرنے کا بیان، ج:15، ص:233، ط:اِدارارۃ الفاروق)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144503102487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں