مسجد میں نماز ختم ہونے کےفورا بعد منبر کے قریب فضائل اعمال کی تعلیم شروع کر دی جاتی ہے ،جب کہ نمازی نماز پڑ رہے ہوتے ہیں،اور کچھ لوگ قرآن پڑ رہے ہوتے ہیں کیا یہ طریقہ صحیح ہے ؟یا اس کے لیے الگ جگہ مختص ہونی چاہیے؟
واضح رہے ،کہ نماز ختم ہونے کے فورا بعد مسجد میں ایسے وقت میں جہرًا تلاوت یا فضائل ِ اعمال کی تعلیم کرنا جس سےنمازیوں کے نماز میں خلل واقع ہو جائے درست نہیں؛ کیوں کہ بعض نمازوں کے بعدسنتیں ہوتی ہیں اور جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہوتی ہیں، تب بھی بعض نمازی مسبوق ہوتے ہیں یعنی ان کی کچھ رکعتیں نکل جاتی ہے،لہذا نمازیوں کی نماز کا خیال رکھتے ہوئے کچھ وقفےسے فضائل اعمال کی تعلیم شروع کی جائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ."
( کتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة و مايكره فيها، مطلب في رفع الصوت بالذكر، 1/666،ط ،سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية."
( کتاب الکرھیۃ،الباب السابع في السلام وتشميت العاطس،5/325، ط،رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101768
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن