بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں تراویح سنانے کی جگہ نہ ملنے کی وجہ سے گھرمیں بیوی اور بچوں کو تراویح پڑھانے کاحکم


سوال

 میں حافظ قرآن ہوں اور مسجد میں تراویح پڑھانے کی جگہ نہیں ملی ،کیا میں گھر پر بیوی بچوں کو تراویح پڑھا سکتا ہوں، مکمل قرآن کے ختم کے ساتھ اور مسجد میں تراویح نہ پڑھنے کی وجہ سے ثواب میں کمی تو نہیں ہو گی ؟

جواب

 ماہِ  رمضان المبارک کی ہر رات  میں ہر شرعی مسجد  میں جماعت کے ساتھ  تراویح پڑھنا مستقل سنتِ موکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر چند افراد مسجد میں جماعت کے ساتھ  تراویح پڑھ لیں تو اہلِ محلہ کی طرف سے مسجد  کی تراویح کی جماعت کی سنت ادا ہوجائے گی، اور اگر مسجد میں تراویح کی بالکل جماعت نہ ہو تو  تمام اہلِ محلہ مذکورہ سنت   کے ترک کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے، نیز تراویح میں ایک قرآنِ مجید ختم کرنا سنت ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو اگر مسجد  میں   تراویح پڑھانے کی جگہ نہیں مل رہی تو سائل گھر میں بیوی بچوں کو تراویح پڑھاسکتاہے،البتہ  گھر میں تراویح سنانے سے  مسجد کا ثواب نہیں ملے گا ،تاہم جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم، وكل ما شرع بجماعة فالمسجد فيه أفضل قاله الحلبي".

"(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد وهكذا في المكتوبات كما في المنية ".

(کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل، 2 /45، ط:  سعید)

وفیہ ایضا: 

"(والختم) مرةً سنةٌ ومرتين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لايثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لايكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل".

(کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل، 2 / 46 /47 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں