بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں سونا اور اس کی بجلی استعمال کرنا


سوال

رمضان میں مسجد میں سونا،  پنکھے اور ایئر کولر چلانا اور جنریٹر چلانا کیسا ہے؟

جواب

مسجد  کی بجلی انہیں مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے جو مسجد اور مسجد  کی ضروریات سے متعلق ہوں، اور نمازیوں کے لیے مسجد  کی بجلی عبادت کے علاوہ اپنے ذاتی استعمال میں لانے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ دورانِ عبادت مسجد کی بجلی استعمال کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اور معتکف (خواہ سنت اعتکاف میں ہو یا نفلی اعتکاف میں) مسجد  میں رہتے ہوئے تمام وقت اعتکاف کی عبادت میں مشغول رہتا ہے، لہذا مسجد کی بجلی استعمال کرنا ذاتی استعمال کے حکم میں نہیں، تاہم اس دوران مسجد میں موبائل چارج کرنا چوں کہ معتکف کی شرعی ضرورت نہیں، لہذا اس کی اجازت نہیں، پس ذاتی مقصد میں بجلی استعمال کرنے کی صورت میں استعمال شدہ بجلی کی مد میں کچھ  رقم مسجد کے اخراجات کی میں جمع کرانا  چاہیے۔

نیز  مسافر  اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا،  پینا اور سونا مکروہ ہے، مسافر اور معتکف کے لیے مسجد میں کھانے،  پینے اور سونے کی گنجائش ہے، واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں، اس لیے عام حالات میں تو وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہے، البتہ بامر مجبوری کسی کو مسجد میں سونا پڑتا ہے تو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:

 1- مسجد کے آداب کا پورا لحاظ رکھے، جتنی دیر مسجد میں رہے شور و غوغا، ہنسی مذاق اور لا یعنی گفتگو سے پرہیز کرے، صفائی کا پورا اہتمام رکھے اور اعتکاف کی نیت کر لے۔ 
2- نمازیوں کو اس سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، اذان ہوتے ہی اٹھ جائے اور بعد میں بھی نمازیوں کے سنن و نوافل یا ذکر و تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنے تک ان کی عبادت میں خلل نہ ڈالے۔
3- اگر طلبہ ہوں تو  باریش یا کم از کم آدابِ  مسجد سے واقف اور باشعور ہوں،   بے شعور بچوں کو مسجد میں سلانا جائز نہیں۔

معتکف اور ایسا مسافر جس کا کہیں ٹھکانہ نہ ہو، اس کا مسجد میں سونا درست ہے، اور تبلیغی جماعت والے اگر صفائی اور مسجد کے ادب واحترام کا لحاظ رکھیں تو  اُن کے لیے مسجد میں سونے کی گنجائش ہے۔

نیز اگر مسجد میں سونے کی ضرورت پیش آئے تو  اپنا کپڑا یا بستر بچھاکر سونا چاہیے، تاکہ اگر احتلام ہوجائے تو مسجد کی چٹائی اور فرش ناپاک نہ ہو۔ اور جب احتلام کی صورت پیش آجائے تو احتیاط کے ساتھ جلد از جلد مسجد سے نکل جائے۔ اور اگر خدا نخواستہ مسجد کی جگہ ناپاک ہوجائے، تو غسل سے واپس آکر فوراً وہ جگہ پاک کرنے کا اہتمام کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غیرمعتکف و غیر مسافر کا مسجد میں سونا مکروہ ہے، جو حضرات نماز یا کسی دوسری عبادت کے لیے  مسجد میں جائیں وہ اِعتکاف کی نیت کرلیا کریں، اس کے بعد نماز و دیگر اعمال سے فارغ ہوکر اگر بوجہ مجبوری کچھ دیر وہاں سونا چاہیں تو اس کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ مندرجہ بالا شرائط کی پابندی کریں۔ نیز مذکورہ تفصیل کی روشنی میں جن صورتوں میں سونے کی گنجائش ہے، ان میں مسجد کی بجلی استعمال کرنے، مسجد کا ائیر کولر یا جنریٹر چلانے کی بھی گنجائش ہوگی۔

البتہ  مسجد میں سونے سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔

الفتاوى الهندية (5 / 321):
"ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية.

ولا بأس للغريب ولصاحب الدار أن ينام في المسجد في الصحيح من المذهب، والأحسن أن يتورع فلاينام، كذا في خزانة الفتاوى". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں