بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں جماعت ثانیہ کا حکم


سوال

مسجد میں جماعت ثانیہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

 جس  مسجد  میں  امام، مؤذن  اور نمازی معلوم ہیں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں  تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے۔

 البتہ  نماز کے لیے مختص وہ مقامات جہاں پنج وقتہ نماز ادا نہ کی جاتی ہو، یا  باہر راستوں پر بنی مساجد جہاں امام ومؤذن مقرر نہ ہو، یا وہاں کے نمازی متعین نہ ہوں، بلکہ راہ چلتے مسافر رک کر باری باری جماعت کراتے ہوں، وہاں  دوسری جماعت کرانا مکروہ نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 552):
"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة  بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعًا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجًا فوجًا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ ". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109203251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں