بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں ہفتہ وار درود شریف کی مجلس قائم کرنے/ خواتین کےلیے پردہ کے اہتمام کے بغیر وعظ کی مجلس قائم کرنے کا حکم


سوال

گاؤں کی مسجد میں جمعرات کے دن نماز مغرب کے بعد امام صاحب اعلان کرتے ہیں کہ نماز کے بعد تمام حضرات تشریف ركھیں، ان شاء اللہ درود شریف کا ختم ہوگا، نماز کے بعد درود شریف کا ختم ہوتا ہے، پھر نعت خوانی ہوتی ہے، نعت خوانی کے دوران سب جھوم رہے ہوتے ہیں، جس سے مسجد میں شور شرابے جیسا ماحول بن جاتا ہے، پھر کچھ کھانے پینے کا اہتمام ہوتا ہے، یہ سلسلہ ہر جمعرات کو ہوتا ہے۔

یہی امام صاحب ہفتہ وار خواتین کی اصلاحی مجلس کا انعقاد کرتا ہے، جس میں بیان ہوتا ہے، لیکن شرعی پردہ کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا، کیا اس انداز میں یہ مجالس قائم کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

جمعہ اور شب جمعہ میں کثرت سے درود پڑھنا بھی باعث فضیلت ہے، لیکن اس کےلیے مخصوص مجالس منعقد کرنا، اس مجلس کےلیے اعلان کرنا سنت، آثار صحابہ، تابعین، سلف صالحین محدثین وفقہاء سے ثا بت نہیں، اسی طرح مسجد کا احترام کرنا، مسجد کو پاک وصاف رکھنا، نجاست میل کچیل سے، شور وشغب، خرید وفروخت سے محفوظ رکھنا شرعاً لازم ہے، اگر نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہو تو بلند آواز سے ذکر وتلاوت یا درود شریف پڑھنا بھی مکروہ ہے،  کھانا کھانا، یا کھلانا بھی اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مسجد میں گندگی نہ ہو،

(۱) لہٰذا امام صاحب کو چاہیے کہ درود شریف کی مذکورہ مخصوص مجالس، اور تکلفات و اہتمام کی بجائے عوام کو  فضائل کے ذریعے درود شریف کی ترغیب دیں، اور مسجد کے آداب بیان کرکے شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے بلا تداعی انفرادی طور پر جو جس قدر چاہے درود شریف پڑھ لے، پھر جس شخص کو جتنی توفیق ہو اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ اتنی درود پڑھ لیا کرے، اور کھانے پینے کا اہتمام مسجد سے باہر ہونا چاہیے تاکہ مسجد کا تقدس برقرار رہے۔

(ـ۲)وعظ ونصیحت کی مجلس میں محلے کی خواتین اگر باپردہ ہوکر ایک جگہ جمع ہوں تو جائز ہے، البتہ ان پر لازم ہے کہ وہ باپردہ آنے جانے کا اہتمام کریں، اس مجلس میں حاضری کا کیا فائدہ ہوگا جس میں بے پردہ ہو کر آنا جانا ہو، لہٰذا امام صاحب کی ذمہ  داری ہے کہ شرعی احکام کے ساتھ ساتھ پردے کی  شرعی حیثیت او راس کے اہتمام کی تلقین کریں۔

مجمع الزوائدمیں ہے:

"‌‌[‌باب ‌الصلاة ‌على ‌النبي صلى الله عليه وسلم ‌يوم ‌الجمعة]

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أكثروا الصلاة علي في الليلة الزهراء واليوم الأزهر فإن صلاتكم تعرض علي. رواه الطبراني في الأوسط وفيه عبد المنعم بن بشير الأنصاري وهو ضعيف."

ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روشن رات اور روشن دن میں (جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن میں)مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو؛ اس لیے کہ تمھارا درود پڑھنا میرے پاس پیش کیا جاتا ہے۔

(كتاب الصلاة، باب الصلاة على النبي يوم الجمعة، ج:2، ص:169، ط:مكتبة القدسي، القاهرة)

عمدة القاري میں ہے:

"حدثنا سليمان بن حرب قال: حدثنا شعبة عن أيوب قال: سمعت عطاء قال: سمعت ابن عباس قال: أشهد على النبي أو قال عطاء: اشهد على ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ومعه بلال، فظن أنه لم يسمع النساء، فوعظهن وأمرهن بالصدقة، فجعلت المرأة تلقي القرط والخاتم وبلال يأخذ في طرف ثوبه........بيان استنباط الأحكام: الأول: قال النووي: فيه استحباب وعظ النساء وتذكيرهن الآخرة وأحكام الإسلام، وحثهن على الصدقة، وهذا إذا لم يترتب على ذلك مفسدة أو خوف فتنة على الواعظ أو الموعوظ، ونحو ذلك."

(كتاب العلم، باب عظة الإمام النساء وتعليمهن، ج:2، ص:184، ط:دار الكتب العلمية)

کفایت المفتی میں ہے:

”(۱و ۲) ہر مسلمان پر مسجد کا شرعی احترام لازم ہے اس کا احترام یہ ہے کہ اس میں نماز اور ذکر اللہ کیا جائے اور اس کو پاک و صاف رکھا جائے شور وغل بیع وشرا سے بچایا جائے وغیرہ (۳) دوسرے نمازی نہ ہوں تو بلند آواز سے کلمہ یا قرآن مجید پڑھنا جائز ہے مگر افضل یہ ہے کہ آہستہ پڑھے (۴، ۵) جو فعل کہ نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا کرے یا مسجد کو ملوث کرے یا شور وشغب ہووہ مکروہ ہے۔۔۔۔۔بلند آواز سے ایسی حالت میں درود شریف پڑھنا کہ ذکر وتلاوت ونماز میں خلل پڑے مکروہ ہے۔۔۔۔۔۔مسجد کا احترام یہ ہے کہ اس میں نماز اور ذکر اللہ کیا جائے اور اس کو نجاست، میل کچیل، شور وشغب، بیع وشراء سے محفوظ رکھا جائے اور کوئی ناجائز بات اس کے اندر نہ کی جائے۔۔۔جب کہ مسجد میں نماز پڑھنے والا کوئی نہ ہو تو اس میں ذکر اللہ یا تلاوت قرآن مجید یا اور کچھ کلام خیر جہرا پڑھنا جائز ہے۔۔۔۔۔۔چائے بسکٹ کھانا کھلانا اگر بطور اجرت ذکر کے ہو تو ناجائز اور بطور اجرت کے نہ ہو تو مباح ہے مگر اس شرط سے کہ مسجد کا فرش ملوث نہ ہو۔“

(کتاب الصلوٰۃ، مسجد کا احترام واجب ہے، جواب نمبر:318، ج:3، ص؛203، 204، ط:دار الاشاعت کراچی)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

ہر جمعرات کو محفِ درود اور شیرینی

سوال۔۔۔۔الجواب حامداً ومصلیاً:

یہ دن کی پابندی ہر جمعرات، وقت کی پابندی بعد نماز عشاء، تداعی (اعلان) کے ساتھ محفل منعقد کرنا سلفِ صالحین: صحابہ، تابعین محدثین، فقہاء سے منقول نہیں ہے۔ اپنی خوشی سے کوئی صاحب اگر شیرینی تقسیم کردیں تو اس سے جبریہ شیرینی کی قباحت تو ختم ہوجائے گی مگر دوسرے قبائح پھر بھی موجود ہیں۔

درود شریف کے فضائل احادیث سے خوب ثابت ہیں، جمعہ اور شبِ جمعہ میں کثرت سے درود شریف پڑھنے کی ترغیب بھی ثابت ہے، مگر اس کےلئے یہ محفلیں منعقد کرنا ثابت نہیں، جو شخص تنہا مسجد میں یا مکان میں جس قدر توفیق ہو درود شریف دل لگا کر اخلاص کے ساتھ یکسوئی کے ساتھ پڑھا کرے، یہ عین سعادت ہے۔ شیرینی جب دل چاہے جس قدر چاہے بازار سے خرید کر کھالیا کرے، غرباء اور دوستوں کو بھی جس قدر چاہے کھلایا کرے۔ فقط واللہ اعلم“

(باب ا لبدعات والرسوم، ہر جمعرات کو محفِ درود اور شیرینی، ج:3، ص:121، ط:فاروقیہ)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144608100378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں