بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا اور مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا


سوال

1:جب جماعت کھڑی ہونے میں کچھ وقت باقی ہو تو اس دوران جب کوئی نیا آدمی مسجد میں داخل ہوتا ہے تو وہ بلند آواز سے"السلام علیکم "کہتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح  سلام کرنا درست ہے یا نہیں ؟ اگر درست ہو تو پھر ہم سب یہی عمل کریں  اور اگر درست نہ ہو تو پھر ہم ایسا کرنے والے کو بھی سمجھائیں ، یا اس کے علاوہ کوئی تیسری بہتر صورت ہو تو رہنمائی فرمائیں؟

2: دوسرا سوال یہ ہے کہ مسجد میں نماز سے پہلے یا بعد میں دنیاوی باتیں کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

1- مسجد میں داخل ہونے کے بعد ان نمازیوں کو سلام کرنا جو کسی عبادت میں مشغول نہیں، صرف نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں جائز ہے، بشرطیکہ اتنی آواز سے ہو کہ عبادت میں مشغول لوگوں کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو۔ اور جو کسی عبادت میں مشغول ہیں، انہیں سلام کرنا مکروہ ہے اور ان پر اس کا جواب دینا بھی لازم نہیں ہے۔اگر مسجد میں حاضر لوگ نماز، تلاوت، وعظ، ذکر وغیرہ میں مشغول نہ ہوں تو آہستہ آواز سے سلام کرے اگر کسی مشغول آدمی کی نماز تلاوت وغیرہ میں خلل کا اندیشہ ہو تو اس وقت سلام نہ کرے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل

و سعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية.

يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية.

إن سلم في حالة التلاوة المختار أنه يجب الرد، كذا في الوجيز للكردري. وهو اختيار الصدر الشهيد، وهكذا اختيار الفقيه أبي الليث - رحمه الله تعالى - هكذا في المحيط."

(کتاب الکراهية، الباب السابع في السلام وتشميت العاطس،5،/325،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ذاكر) فسره بعضهم بالواعظ لأنه يذكر الله تعالى ويذكر الناس به؛ والظاهر أنه أعم، فيكره السلام على مشتغل بذكر الله تعالى بأي وجه كان رحمتي۔"

(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،1،/616،ط:سعید) 

وفیہ ایضا:

"وإن دخل مسجدًا وبعض القوم في الصلاة وبعضهم لم يكونوا فيها يسلم وإن لم يسلم لم يكن تاركًا للسنة اهـ. ...وإذا جلس القاضي ناحية من المسجد للحكم لايسلم على الخصوم، ولايسلم عليه؛ لأنه جلس للحكم والسلام تحية الزائرين."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، ج: 6، صفحہ: 413 و 415، ط: ایچ، ایم، سعید)

2- مسجد اللہ کا گھر ہے، عبادت کی جگہ ہے، اس کا احترام کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ بقدر ضرورت آہستہ آواز سے جائز اور مباح  دنیاوی گفتگو کی مسجد میں گنجائش  ہے اگرچہ بہتراورافضل یہ ہے کہ مسجد میں دنیاوی گفتگو نہ کی جائے۔

حدیث شریف میں ہے:

 قال رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم: یأتي علی الناس زمان یکون حديثهم في مساجدهم في أمر دنیاهم فلا تجالسوهم فلیس للہ فیهم حاجة.

ترجمہ: "لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں دنیا کی باتیں کریں گے، تم ان کے ساتھ مت بیٹھنا اللہ تعالی کو ان کی کچھ پرواہ نہیں"

(شعب الإیمان للبیهقی،الصلوات،فضل الجمعة،87/3،ط:دار الکتب العلمية) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله بأن يجلس لأجله) فإنه حينئذ لا يباح بالاتفاق لأن المسجد ما بني ‌لأمور ‌الدنيا. وفي صلاة الجلابي: الكلام المباح من حديث الدنيا يجوز في المساجد وإن كان الأولى أن يشتغل بذكر الله تعالى، كذا في التمرتاشي هندية۔"

(باب الإمامة،باب مايفسد الصلاة وما يكره فيها،1/ 662،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

الجلوس في المسجد للحدیث لا یباح بالاتفاق؛ لأن المسجد ما بنی لأمور الدنیا، وفي خزانۃ الفقہ ما یدل علی أن الکلام المباح من حدیث الدنیا في المسجد حرام. قال: ولا یتکلم بکلام الدنیا، وفي صلاۃ الجلابي الکلام المباح من حدیث الدنیا یجوز في المساجد، وإن کان الأولی أن یشتغل بذکر اللہ تعالی.كذا في التمرتاشي۔"

(الفتاوی الهندية،كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد،321/5،ط:رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں