بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں چندہ کے طور پر نفلی صدقہ دینے کا حکم


سوال

 ایک شخص روزانہ صبح گھر سے نکلتے وقت مسجد کے چندہ پیٹی میں دس بیس روپیے صدقہ کی نیت سے ڈالتا ہے تاکہ دن بھر اس کا اچھا  گزرے،اگر کہیں سفر پر جانا ہوتا ہے  تب بھی صدقہ کی نیت سے مسجد  کے چندے  کے ڈبہ میں روپیہ ڈالتا ہے کہ اس کا سفر آسان ہو ،کبھی کوئی گھر میں بیمار ہے تو اس کا صدقہ بھی مسجد کے ڈبے میں اور کبھی کسی ضرورت مند کو دیتا ہے ،اس کو ایک دیندار نے کہا کہ آپ کا یہ صدقہ مسجد کو دینا بالکل جائز نہیں،  اس سے آپ کا صدقہ ادا نہیں ہوگا ،مسجد کو صرف للہ رقم دینی چاہیے ، صدقہ وغیرہ کی رقم مدرسہ یا ضرورت مند کو دینا چاہیے ، ًکیا یہ صحیح ہے؟ اور ہاں یہ  اپنی  طرف سے نہیں کرتا تھا، بلکہ ایک عالم صاحب نے انہیں اس طرح کرنے کہا تھا؛  اس لیے وہ مسجد کے ڈبہ میں یہ صدقہ ڈالتا تھا، واجب صدقہ مسجد کو نہیں دینا چاہیے اس سے مراد کیا ہے ؟وہ بھی واضح  فرمادیجیے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل كا مسجدکے چندہ کی پیٹی میں صدقہ کی نیت سےروپے ڈالناصحیح ہے، باقی واجب صدقہ مسجد کو نہ دینےکامطلب یہ ہے کہ فدیہ، کفارے، منت اور زکات کی رقم مسجد میں نہیں دے سکتے ؛ کیوں کہ مسجد صدقات واجبہ کے مصرف میں سے نہیں ہے۔

         فتاوی عالمگیری میں  ہے:

" لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، و كذا القناطر و السقايات، و إصلاح الطرقات، و كري الأنهار، و الحج و الجهاد، و كل ما لا تمليك فيه، و لايجوز أن يكفن بها ميت، و لايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين' .

(ج:1، ص:188، کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، ط؛ رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں