بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں نماز جنازہ


سوال

کیا مسجد میں نماز جنازہ ہوسکتا ہے؟ 

جواب

بلاکسی عذر کے مسجد میں جنازے کی نماز اداکرنا مکروہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول یہی تھا کہ نمازِ جنازہ مسجد سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے۔ البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً شدید بارش ہو اور کوئی متبادل جگہ موجود نہ ہوتو اس صورت میں مسجد میں نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكرهت تحريمًا) وقيل: (تنزيهًا في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم.
(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة."

وفی الرد:

"(قوله: مطلقًا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، كتاب الصلاة،باب صلاة الجنازة،2/ 224، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، كتاب الصلاة،باب صلاة الجنازة،2/ 226، ط: سعيد)

فتاوی ٰہندیہ میں ہے:

"والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة سواء كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة."

(الفتاوى الهندية ،كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر ،1/ 165، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں