بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں مطلق صدقہ کرنے کی نذر کا حکم


سوال

مسجد میں صدقہ کی نذر مبہم کا کیا حکم ہے؟ یعنی ایسا کہا کہ اگر اس مرض سے شفا مل جائے تو مسجد میں صدقہ کرونگا، آیا یہ منت ہوا ہے یا نہیں؟ اگر منت ہواہے تو صدقہ کی اس نذر مبہم میں کیا دینا پڑےگا؟ بينوا تؤجروا

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کی نذر مانتا ہے تو اُس کے اوپر نذر کا پورا کرنا اُسی وقت واجب ہو گا جب وہ شرط پائی جائے جس شرط کے ساتھ اُس نے نذر کو معلق کیا ہو؛لہذا صورت مسئولہ میں  جب نذر ماننے والے نے مرض سے شفاء مل جانے پر صدقہ کرنے کی نذر مانی اور صدقہ کی مقدار کو متعین نہیں کیا تو اب اگر  اس مرض سے شفا مل جائے جس پر نذر کو معلق کیا تھا  تو اس پر دس  صدقہ فطر کی مقدار  رقم  صدقہ کرنا واجب ہے؛ البتہ یہ رقم  چوں کہ صدقات واجبہ کے قبیل سے ہے اس کا مسجد میں استعمال  کرنا شرعاً درست نہیں ۔تاہم کسی فقیر کو ادا کرنے سے اس کی نذر پوری ہوجائے گی ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قال علي نذر ولم يزد عليه ولا نية له فعليه كفارة يمين) ولو نوى صياما بلا عدد لزمه ثلاثة أيام ولو صدقة فإطعام عشرة مساكين كالفطرة

(قوله ولو صدقة) أي بلا عدد (قوله كالفطرة) أي لكل مسكين نصف صاع."

(کتاب الأیمان،ج:۳،ص:۷۴۲،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

" لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار، والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(کتاب الزکات،الباب السابع فی المصارف،ج:۱،ص:۱۸۸،دارالفکر)

الدرالمختار ميں هے :

"(نذر لفقراء مكة جاز الصرف لفقراء غيرها)."

(کتاب الأیمان،ج:۳،ص:۷۴۰،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں