بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں بچوں کو صف سے پیچھے کرنا


سوال

 کچھ مسجدوں میں چھوٹے بچوں کو پیچھے کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ بچوں کو آگے مت لاؤ اس سے نماز نہیں ہوتی یا بچوں کو نہ لاؤ یا یہ منع ہے، اس کے بارے میں مکمل تفصیل سے آگاہ کریں!

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ نے ولی کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ  سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کا حکم دیں،  لہذاسات سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے، لیکن سات سال کی عمر سے کم کے بچے اگر پاکی  و ناپاکی کی تمییز رکھتے ہوں  اور شوروشغب نہ کرتے ہوں تو  انہیں مسجد لانا یا بھیجناجائز ہے، بصورتِ دیگر بلا ضرورت  سات سال سے کم عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں، تاکہ وہ مسجد کو ناپاک نہ کریں، حدیث شریف میں بھی بہت چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے سے منع کیا گیا ہے۔

 اگر ایک ہی نابالغ بچہ ہو تو اسے بالغوں کی صف میں کھڑا کیا جائےاور اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ انہیں بالغوں کی صف کے پیچھے کھڑا  کیا جائے، مگر اس زمانے میں نابالغ  بچوں کو مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے، کیوں کہ دو یا زیادہ بچے ایک جگہ جمع ہوکر  نہ صرف اپنی نماز خراب کریں گے، بلکہ دوسروں کی نماز میں بھی خلل ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں، تاہم ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ بچے کا سرپرست اسے اپنے ساتھ لے کر صف کی ایک جانب کھڑا ہو۔ نیز  بالغ اور باشرع افراد کی موجودگی میں پہلی صف میں امام کے قریب بچے نہ کھڑے ہوں، امام کے قریب وہ افراد کھڑے ہوں جو بوقتِ ضرورت امامت کرسکتے ہوں۔

کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ بچوں کو ڈانٹ کر ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کی صف میں بھیجیں، اس سے بچوں کی تربیت نہیں ہوسکے گی اور وہ مسجد سے دور ہوسکتے ہیں۔ اگر بچے نماز کے دوران مسجد میں شوروغل کریں تو انہیں  نرمی اور محبت کے ساتھ سمجھا دینا چاہیے، سخت لہجہ سے پیش نہیں آنا چاہیے۔

"ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره".

و في الرد:

"(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري مرفوعًا: «جنّبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسلّ سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر»، بحر. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين،كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة 1 / 656 ط: سعيد)

(قوله: و يصف الرجال ثم الصبيانثم النساء)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليليني منكم أولو الأحلام والنهى...و لم أر صريحًا حكم ما إذا صلى ومعه رجل و صبيّ، و إن كان داخلاً تحت قوله: "و الاثنان خلفه" و ظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل و الصبي و يكونان خلفه؛ فإنه قال:  فصففت أنا و اليتيم وراءه، و العجوز من ورائنا، و يقتضي أيضًا أن الصبيّ الواحد لايكون منفردًا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم، و أن محلّ هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان". (البحر الرائق ، كتاب الصلاة، باب الإمامة 3 / 416 ط:دار الفكر)

(قوله: ذكره في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال، انتهى. (التحرير المختار، كتاب الصلاة، باب الإمامة  1 / 571 ط: سعيد) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200880

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں