بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد,مدرسہ کے چندے کے مصارف،اور منتطم کی ذمہ داری


سوال

 میں ایک دینی ادارے کا منتظم اعلی ہوں اور ادارے کی  مسجد میں امامت و خطابت بھی سرانجام دے رہا ہو، کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

       چندہ کی مختلف شکلیں ہیں،مثلا (1)چندہ بکس جس پر آویزہ  ہوتا ہے مصالح مسجد و مدرسہ ،عطیات ، صدقات، متفرق امور برائے مسجد و مدرسہ،(2)مدرسہ و اسکول کے داخلے فیس کا ایک فنڈ،(3) اسکول فیس جو ماہانہ طلباء سے لی جاتی ہے،(4) جمعہ کا چندہ،اب سوال یہ ہے  کہ:(1)          جمعہ کے چندہ سے  مسجد ،مدرسہ اور اسی طرح امام  مسجد کے گھر کی بجلی اور گیس كا  بل ادا کرنا جائز ہے؟

(2)          جمعہ  کے  چندہ سے   مدرسے کی تعمیرات  میں لگانا کیسا ہے؟

(3)          اسی طرح جمعہ کے چندہ سے  اساتذہ کرام میں سے کسی  کے ساتھ انفرادی تعاون  جائز ہے؟  

(4)          بعض اوقات ذاتی مہمان آتے ہیں جو ادارے کے ساتھ مختلف شکلوں میں تعاون کرتے ہے،توکیا ایسے مہمانوں پر مسجد و مدرسہ کے عطیات یا مصالح مسجد و مدرسہ یا متفرق امور برائے مسجد و مدرسہ  میں سے خرچ کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ذاتی تنخوں اتنی محدود ہے کہ بنیادی  ضروریات   کے لیے کافی ہے  فقط۔

(5)          منتظم ہونے کی حیثیت سے حساب و کتاب کے وقت    ہمیشہ  دل میں ایک خلجان  سا  رہتا  ہے کہ حساب و کتاب میں کچھ غلط نہ ہوجائے، اور بعض اوقات مسئلہ پوچھنے کے بعد بھی تردد رہتا ہے ، اس کے لیے کیا کیا جائے؟ 

(6)           مدرسہ میں چوں کہ مختلف مصارف ہیں 'مثلا رہائشی طلباء ، اساتذہ کی تنخواہیں،امام صاحب کی گھر اسی طرح اساتذہ کی گھر'لہذ ا کچھ موٹے موٹے اصول بتلادیں  تاکہ خرچ کے وقت اطمینان رہے۔

جواب

واضح رہے چندہ خرچ کرنے میں  چندہ دینے والوں کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے لہذا   کسی مسجد میں چندہ دینے والے اگر کسی خاص مصرف کے لیے چندہ دے دیں تو اس کو اسی مد میں خرچ کرنا ضروری ہے ۔ لیکن اگر چندہ دینے والے کسی خاص مصرف کی تعیین کئے بغیر چندہ دیں تو اس کو مسجد کے مصارف و مصالح میں خرچ کیا جاسکتا ہے ۔مصالح مسجد میں سے امام کی رہائش بھی ہے اورہمارے عرف میں امام مسجد کی رہائش گاہ کا بجلی ، گیس اور پانی کا بل بھی مسجد کے مصالح میں شمار ہوتا ہے اس لیے مسجد کے عمومی چندہ سے یہ اخراجات کرنا جائز ہے ، مدرسہ چوں کہ مصالح مسجد میں شمار نہیں ہوتا اس لیے مدرسہ کا گیس ،بجلی  کا بل   کی ادائیگی  مسجد کے چندہ سے جائز نہیں ہے ،ہاں اگر چندہ دینے والوں کی  صریح اجاز ت    ہو یا   مسجد و مدرسے کا چندہ ایک ساتھ کیا جاتا ہو یعنی چندہ دینے والوں کو معلوم ہو کہ یہ پیسہ مسجد و مدرسہ  دونوں جگہ خرچ کیاجائے گا تو اس صورت میں مسجد کے پیسوں سے مدرسے کا بِل ادا کرنا جائز ہوگا۔

2)عموما مساجد میں جمعہ کے دن عوام سے   جو چندہ  جمع کیا جاتا ہے وہ مسجد کے مصالح ہی کے لیے،  ہوتا ہے،  لہذا  اُسے مسجد کی ضروریات ومصارف میں خرچ کرنا ضروری ہے،اس سے  مدرسہ کی  تعمیر  میں خرچ کرنا  جائز نہیں ہے،ہاں اگر چندہ کرتے وقت یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مسجد اور مدرسہ دونوں کے لیے ہے پھر جائز ہو گا۔

3)اسی طرح اس چندہ سے  اساتذہ میں سے کسی  کے ساتھ انفرادی تعاون بھی جائز  نہیں ہے۔

4)اگر مدرسے کے پیسے زکات کے ہیں تو سائل  کا ان پیسوں سے مہمان نوازی درست نہیں ہے،  اور اگر نفلی صدقات ،عطیات   ہیں  اورمہمان  مدرسے ہی  کی کسی مناسبت سے آئے ہیں، ذاتی مہمان نہیں ہیں تو  ان پیسوں سے ان مہمانوں کےلیے  مہمان نوازی  یعنی کھانے پینے  کا انتظام کرنا درست ہوگا،لیکن ذاتی مہمانوں کےلیے ان پیسوں کے استعمال کی اجازت نہیں ہوگی،  مسجد کے عطیات  و مصالح سے  بھی ذاتی مہمانوں   پر خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ 

5)کسی بھی دینی ادارے کا انتظام  بہت بڑی ذمہ داری ہے،    لہذا   حساب و کتاب   اپنی استطاعت کے مطابق  درست رکھنا ضروری  ہے اور ہر وقت اس کی فکر رہنا  اچھی صفت ہے ، البتہ   کسی جگہ شرعی راہ نمائی کی ضرورت محسوس ہو تو مفتیان کرام کی طرف رجوع کریں۔   

6)الف ۔مدرسہ و مسجد کا حساب علیحدہ  علیحدہ ہونا چاہیے، مسجد کے فنڈ میں صدقات واجبہ والی رقوم استعمال کرنا درست نہیں ہے ، لہذا مسجد میں جو چندہ ہوتا ہے وہ صرف  مسجد کے مصالح میں جس میں امام و مؤذن کی تنخوائیں بھی شامل ہیں   خرچ کیا جائے۔

ب۔مدرسہ کی بنیادی طور  پر دو فنڈ ہوتے ہیں:

(1)زکوۃ کا فنڈ  جس میں زکوۃ کے علاوہ   صدقہ فطر ، نذر، کفارات، اور دیگر صدقات واجبہ  شامل ہیں،اس فنڈ کو مستحق طلباء کے خورد و نوش اور عام ضروریات  دوا علاج میں خرچ کیا جائے۔

(2)دوسری مد امدادی رقوم   عطیات ،نفلی صدقات ،تحفے تحائف ، اس کو اساتذہ اور ملازمین  کی تنخواہوں اور مدرسہ کے مہمانوں ،تعمیرات،ضروری کتب   وغیرہ میں خرچ کیا جائے۔(مزید استفادہ کے لیے تحفۃ المدارس جلد 2  (ادارۃ تالیفات اشرفیہ)مطالعہ میں رکھیں)

نوٹ:ایک ہی چندہ  بکس  میں مختلف مد (عطیات ،صدقات )جمع کرنا جائز نہیں ہے ، بل کہ ضروری ہے کہ ہر مد کے لیے الگ بکس ہو، تاکہ  ہر ایک مد  اپنی مصرف پر خرچ  کرنے میں آسانی ہو۔

فتاوی شامی ہے:

"فإذا أطلقها الواقف انصرفت إليها لأنها هي الكاملة المعهودة في باب الوقف، وإن كان الكامل عكسها في باب الصدقة فالتسوية بينهما غير صحيحة، على أنهم صرحوا بأن ‌مراعاة ‌غرض الواقفين واجبة".

(کتاب الوقف، مطلب  مراعاۃ غرض الواقفین واجبة،ج:4، ص:445، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

‌"شرط ‌الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة".

(كتاب الوقف، مطلب في شرط الواقف...،ج:4،ص:433، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"الثامنة في وقف المسجد: أيجوز أن يبنى من غلته منارة؟ قال في الخانية معزيا إلى أبي بكر البلخي: إن كان ذلك من مصلحة المسجد بأن كان أسمع لهم فلا بأس به."

( کتاب الوقف،ج:2، ص:233،ط: دار  الکتاب الإسلامی)

وفيه ايضا:

"وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف.وكذا إذا اختلف الواقف لا الجهة يتبع شرط الواقف وقد علم بهذا التقرير إعمال الغلتين إحياء للوقف ورعاية لشرط الواقف هذا هو الحاصل من الفتاوى...وقد علم منه أنه لا يجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر".

(كتاب الوقف، ج:2، ص:234، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أراد أن يصرف شيئا من ذلك إلى إمام المسجد أو إلى مؤذن المسجد فليس له ذلك، إلا إن كان الواقف شرط ذلك في الوقف، كذا في الذخيرة".

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به،  الفصل الثاني في الوقف و تصرف القيم..، ج:2، ص:463، ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

‌"الوكيل ‌إنما ‌يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره".

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:269، ط:سعيد)

الدرالمختار میں ہے:

"(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم  ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر (وإن لم يشترط الوقف) لثبوته اقتضاء".

وتحتہ فی الشامیۃ:

مطلب عمارة الوقف على الصفة التي وقفه [تنبيه] لو كان الوقف على معين فالعمارة في ماله كما سيأتي بقدر ما يبقى الموقوف على الصفة التي وقفه، فإن خرب يبني كذلك ولا تجوز الزيادة بلا رضاء ولو كان على الفقراء فكذلك، وعند البعض تجوز والأول أصح هداية ملخصا وبه علم أن عمارة الوقف زيادة على ما في زمن الواقف لا تجوز بلا رضا المستحقين۔۔۔۔فيقدم أولا ‌العمارة ‌الضرورية ثم الأهم فالأهم من المصالح والشعائر بقدر ما يقوم به الحال، فإن فضل شيء يعطى لبقية المستحقين إذ لا شك أن مراد الواقف انتظام حال مسجده أو مدرسته لا مجرد انتفاع أهل الوقف."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:366۔368، ط:سعید)

فتاوی محمودیہ کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

"مسجد کے لیے جو چندہ کیا جاۓاس کو مدرسہ میں صرف کرنا جائز نہیں، مدرسہ کے لئے جو چندہ کیا جائے اس کو مسجد پر صرف کرنا جائز نہیں ۔"

(کتاب الوقف،  الفصل الرابع  عشر فی صرف مال المسجد فی غیرہ،  ج:15،  ص:55، ط:ادارۃ الفاروق)

وفیہ ایضا:

"مسجد اور مدرسہ دونوں کے لئے مشتر کہ چندہ کر نا درست ہے  اور جب یہ اعلان کر دیا کہ دونوں کی تعمیر ہوگی اور دونوں کے لئے لوگ چندہ دے رہے ہیں تو پھر کیا تر د ہے ۔ علیحدہ علیحدہ کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے، پھر جو چندہ جس کے لئے وصول کیا ہے اس کو اس میں صرف کرنا چاہیے ، ایک کا چندہ دوسرے مصرف میں صرف نہ کرے۔"

(کتاب الوقف،  الفصل السابع عشر فی التبرعات بطریق الاکتناب،  ج:15،  ص:150، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی رحیمیہ  کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

"صورت مسئولہ میں اگر  چندہ دہندہ گان کی اجازت  اور رضا مندی صراحۃً یا دلالۃًہو تو  ان مخصوص لوگوں کی مہمان نوازی جن کی ذات سے مدرسہ کو معتد بہ نفع کی توقع ہو درست ہے،ورنہ مہتمم اور  اہل شوریٰ اپنے پاس سے خرچ کریں۔"

(کتاب الوقف، احکام المساجد و المدارس، ج:9، ص:96، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں