ایک شخص نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور اس نے اپنی بیوی کے ذریعہ عورتوں کے گروپ میں میسج کیا کہ ہم کسی علاقہ میں مسجد بنا رہے ہیں ، عورتوں نے تقریبا ایک سال تک خوب تعاون کیا، کچھ عرصہ بعد شک ہوا ،تحقیقات کروائیں تو معلوم ہوا کہ کوئی مسجد نہیں بن رہی، سب دھوکہ ہے، اب جن لوگوں نے رقم دی ہے بقول ان کے یہ تو پچھلے 3 سال سے مدرسہ کے لیے بھی زکوة، خیرات اور صدقات اور بقرۂ عید میں قربانی کے نام پر پیسے لے رہے ہیں، اس شخص کی بیوی کے بقول میرے شوہر نے مسجد کے معاملے میں دھوکہ کیا ہے، باقی مدرسہ میں خود دیکھ رہی ہوں اور قربانیاں میرے سامنے ہوئی ہیں، پھر اس کی بھی تحقیق ہوئی تو یہ بھی دھوکہ نکلا۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس عورت کی بات کا اعتماد ہوگا؟اگرسب جھوٹ اور دھوکہ ہے تو زکوۃ اور قربانیوں کا کیا ہوگا؟اور یہ سب کس کے ذمہ ہوں گی؟بہت ساری عورتوں نے اپنے رشتے داروں سے رقم لے کر اس عورت کےاکاؤنٹ میں بھیجے تھے، ان سب کا کیا حکم ہے؟اگر کوئی مال دار ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور جو متوسط ہے اس کی زکوة اور قربانیوں کا کیا حکم ہے؟ اور مذکورہشخص کی بیوہ (ثناء) نے اپنی شاگردوں کو میسیج کیا، ان کی شاگردوں میں سےایک شاگردہ( فاطمہ) نے اپنے رشتے داروں سے رقم لی تو ان کے رشتے داروں کی زکوۃ اور قربانی کا کیا حکم؟ اور ایک شاگردہ نے رقم کےلیے آگے دوسرے لوگوں سے بات کی،تو ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے یہ رقم آپ کو دی ہے، میں بری الذمہ ہوں، تو اس کا کیا حکم ہے؟
ایک شخص زید نے مدرسہ اور مسجد کے نام پر پیسوں کا تقاضہ کیا، دوسرے شخص عمرو کو اُن پر اعتماد تھا، اُس اعتماد کی بنیاد پردوسرے شخص نے اپنے تعلّقات والوں میں اس مد کی رقم کی بات چلائی، اب بکر نے پیسے جمع کر کے عمرو کو دیے اور کہہ دیا کہ اگر کچھ بھی اونچ نیچ ہوئی تو آپ ذمہ دار ہوگے، کیوں کہ یہ زکوٰۃ ، قربانی اور صدقہ کی مد میں ہےا ور عمرونے ذمہ داری قبول کی اورعمرو قابل اعتبار بھی ہے، پھر چند سال بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ سب دھوکہ تھا، تو ایسی صورت میں بکر اور اس کے تعلقات والے بری الذمہ ہوں گے؟ اور اگر رقم واپس ملتی ہے تو لوگوں کے کس طرح واپس کریں گے؟ اور وہ زکوۃ کے شمار ہوں گے، قربانی کے یا مسجد کے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃًمذکورہ شخص اور اس کی بیوی نے نہ مسجد بنائی ، نہ مدرسہ کے مصارف میں پیسے خرچ کیے اور نہ ہی لوگوں کے پیسوں سے ان کی قربانی کی تو وہ دونوں گناہ گار اور ان کے پیسوں کے ضامن ہوں گے، ان دونوں کا مسجد کے لیے لی گئی رقم کو مسجد کےعلاوہ کسی دوسری جگہ استعمال کرنا جائز نہ تھا،اور لوگوں سے رقوم جس کام کے لیے لی تھیں، اسی کام میں خرچ کرنا لازم تھا، اپنی ذاتی استعمال میں لانا یا کہیں او ر خرچ کرنا جائز نہ تھا، کیوں کہ وہ دونوں مسجد اور مدرسہ کے مال کو خرچ کرنےمیں وکیل تھے ، وہ رقم ان کے پاس بطورِ امانت کے تھی اور وکیل کی تعدی یا غفلت وکوتاہی کی وجہ سے رقم ضائع ہونے کی صورت میں وکیل پر ضمان ہوتا ہے اور یہاں ان دونوں نےرقم جمع کرکے مسجد و مدرسہ میں خرچ نہ کی، اس لیے دونوں ضامن ہیں۔
وکیل کے پاس مؤکل کی زکات یا قربانی کی رقم ضائع ہونےکی صورت میں مؤکل کی زکات یا قربانی ادا نہیں ہوتی، اس لیے جن لوگوں نے زکات یا قربانی کی مد میں رقم دی تھی، ان کی زکات اور قربانی ادا نہیں ہوئی،اب ان لوگوں پر دوبارہ زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے، نیزقربانی کے بدلے میں ایک متوسط بکرےیا بکری کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے، یہ رقم وہ مذکورہ شخص/ اس کی بیوی سے لے کر خرچ کریں گے۔
بکر اور اس کے تعلقات والوں نے زکاۃ، قربانی اور صدقات وغیرہ کی رقم عمروکو دی اور گڑبڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور عمرو نےذمہ داری قبول بھی کرلی تو بکر اور اس کے تعلقات والے اپنی رقم کا مطالبہ عمرو سے کریں گے، نہ کہ زید سے اور عمرو اس رقم کا مطالبہ زید سے کرےگا اور بکر اور اس کےتعلقات والوں کی رقم ادا کرے گا۔
نیز جیسے جیسے وہ رقم واپس ملتی جائےگی تو لوگوں کو ان کی رقم کے تناسب کے حساب سے واپس کی جائے گی، البتہ جس نےمسجد کی مد میں رقم دی تھی اس پر دوبارہ مسجد کےلیے رقم دینا ضروری نہیں، لیکن مسجد کی مد میں رقم دینے کی نیت کرلی تھی تو دوبارہ دے دینا بہتر ہے۔
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:
" شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في وجوب العمل به. "
(كتاب الوقف، ج:2، ص:228، ط: العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت".
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا كان عند رجل وديعة دراهم أو دنانير أو شيء من المكيل أو الموزون وأنفق شيئا منها في حاجته حتى صار ضامنا لما أنفق لا يصير ضامنا لما بقي".
(كتاب الوديعة، الباب الرابع فيما يكون تضييعا للوديعة وما لا يكون، ج:4، ص:348، ط: دار الفكر)
البحر الرائق میں ہے:
"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ.إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية".
وفیہ أیضاً:
"وفي الخانية من باب الأضحية: للوكيل بدفع الزكاة أن يوكل بلا إذن، ولا يتوقف، وفي القنية من باب الوكالة بأداء الزكاة لو أمره أن يتصدق بدينار على فقير معين فدفعها إلى فقير آخر لا يضمن ثم رقم برقم آخر أنه في الزكاة يضمن، وله التعيين. اهـ".
وفیہ أیضاً:
"وهنا الوكيل إنما يملك التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فليس له مخالفته كما في سائر أنواع الوكالة".
(كتاب الزكاة، شروط أداء الزكاة، ج:2، ص:228/227، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله ولو تركت التضحية إلخ) شروع في بيان قضاء الأضحية إذا فاتت عن وقتها فإنها مضمونة بالقضاء في الجملة كما في البدائع".
"(قوله ومضت أيامها إلخ) قيد به لما في النهاية: إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة".
(كتاب الأضحية، ج:6، ص:320، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603100367
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن