بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد مدرسے کا کام کروانے پر کمیشن وصول کرنا


سوال

 میں مدرسے کا طالب علم ہوں ، میرے پاس کچھ ایسے لوگ ہیں جو مدرسہ مسجد یا کوئی بھی فلاحی کام  کے لیے مجھے کہتے ہیں کہ آپ کروادو ، مثال کے طور پر مدرسہ کی چھت کا کام ہے تو زید نے مجھ سے کہا کے یہ کام کروادو آپ اپنی نگرانی میں، اب میں نے ٹھیکدار سے بات کی تو اُس نے ایک لاکھ روپے کا خرچہ بتایا اب میں نے زید سے کہا کہ ٹھیک ہے چھت بن جائے گی ، ایک لاکھ دس ہزار روپے خرچہ آئے گا ،اب آیا میرا یہ دس ہزار روپے رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ وجہ یہ ہے کہ اکثر کام دور کے مدارس اور مساجد میں ہوتے ہیں تو  وہاں بار بار جانا سواری کے اخراجات،  پھر پیسوں کا لین دین پیسے لینے جانا دینے جانا،  مزدور اور ٹھیکدار سے سب معاملات،  تو ان صورتوں میں اپنا حصہ رکھنا جائز ہے یانہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو یہ کہتا ہے کہ آپ میرے لیے بازار سے فلاں چیز لے آؤ یا میرا فلاں کام کرو تو یہ توکیل (وکیل بنانے) کا معاملہ ہے، یعنی پہلے شخص نے دوسرے کو اپنا وکیل  بنایا ہے، اور وکالت جس طرح اجرت کے بدلے ہوتی ہے، اسی طرح بطورِ تبرع بھی ہوتی ہے، اور بطورِ وکیل کوئی کام کرنے پر وکیل کو اجرت لینے کا حق اس وقت ہوتا ہے جب وکالت کے وقت صراحۃً اجرت کی شرط لگالی گئی ہو یا پھر یہ دوسرا آدمی (وکیل) معروف اجرت کے بدلے ہی کام کرنے میں مشہور ہو، یعنی اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ وہ معروف اجرت کے بدلہ کام کر کے دیتا ہو، لیکن اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے تو پھر وکیل کو مؤکل سے اجرت لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔

لہزا صورت مسئولہ میں اگر آپ ابتداءً ہی اپنی محنت اور وقت کے بدلہ میں مسجد مدرسے کا کام دینے والے سے اجرت طے کرلیں یا آپ معروف اجرت کے بدلے ہی کام کرنے میں مشہور ہوں، یعنی آپ کے بارے میں یہ بات معروف ہو  کہ  آپ  اجرت کے بدلے کام کر کے دیتے ہیں  تو پھر  آپ کے لئے اس صورت میں طے شدہ یا معروف اجرت یا کمیشن وصول کرنا جائز ہوگا ورنہ آپ کے لیے اپنا حصہ رکھنا جائز ہوگا۔

درر الحکام في شرح مجلة الأحکام" میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں