بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے زائد سامان کے کسی دوسری مسجد یا گھر منتقل کرنے کا حکم


سوال

ہماری مسجد میں کافی خراب سامان ، جس میں الماریاں ، پرانے قالین ، لکڑی کے شیلف موجود ہیں، اور ان کا استعمال اس وقت اس مسجد میں کچھ نہیں ہے، اور نہ ہی آئندہ ان کے استعمال میں آنے کی کوئی صورت ہے، اور وہ تمام  چیزیں مسجد سے الگ ایک جگہ کمرے میں رکھی ہوئی ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں شریعت اور علماء کرام کی کیا رائے ہےکہ ہم ان چیزوں  کو کسی دوسری مساجد وغیرہ میں دے سکتے ہیں؟ اور کسی غریب کو دے سکتے ہیں یا اس کو فروخت کر کے رقم مسجد میں دے سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرمذکور سامان متعلقہ مسجد کی حاجت سے زائد ہو اور آئندہ  بھی مسجد  میں اس کے استعمال کا امکان نہیں ہے ، اور رکھے رہنے میں ضیاع کا اندیشہ ہو اور کسی دوسری قریبی مسجد میں ان چیزوں کی ضرورت ہو تو انہیں قریبی دوسری مسجد میں دینا جائز ہے،اور اگر مسجد کے علاوہ کوئی شخص اپنے گھر وغیرہ کے لیے لینا چاہے تو     اس کو فروخت کر کے اس کے  پیسوں کو اسی مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ومثله) في الخلاف المذكور (‌حشيش ‌المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه) تفريع على قولهما درر."

(کتاب الوقف،4/ 359ط: دار الفكر - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں