بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے اسپیکر سے فوتگی کے اعلان کا حکم


سوال

مسجد کے اسپیکر سے یہ اعلان کرنا کہ "زید بقضائے الٰہی فوت ہوگیا ہے، اس کی نمازِ جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا" شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

مسجد کے لاو  ڈاسپیکر سے نمازِجنازہ کا اعلان درست ہے ، اور اگر اس کے ضمن میں فوتگی کا اعلان  بھی کردیاجائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ، صرف فوتگی کا اعلان ایک مرتبہ کرنے کی تو گنجائش ہے،  البتہ باربارصر ف موت کا اعلان  کہ  "فلاں کا انتقال ہوگیا ہے "  خواہ مسجد کےلاؤڈ اسپیکر سے ہو یاغیر مسجد کے،  بہر حال صحیح نہیں، اس لیے  کہ یہ  "عزاءِ جاہلیت"  (نوحہ) کے  ساتھ  مشابہ ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه، كذا في السراج الوهاج و لايجوز أن يترك فيه كل الليل إلا في موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المقدس ومسجد النبي صلى الله عليه وسلم والمسجد الحرام، أو شرط الواقف تركه فيه كل الليل كما جرت العادة به في زماننا، كذا في البحر الرائق."

(فتاوی ہندیہ، ج: 2، کتاب الوقف، باب 11، فصل 2، ص: 459، ط: مکتبہ رشیدیہ)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والنعي، فإن النعي من عمل الجاهلية."

(سنن الترمذی، ج: 2، ابواب الجنائز، باب ماجاء فی کراہیۃ النعی، ص: 303، ط: دار الغرب الاسلامی)

فتح الباری میں ہے:

"أن النعي ليس ممنوعا كله وإنما نهي عما كان أهل الجاهلية يصنعونه فكانوا يرسلون من يعلن بخبر موت الميت على أبواب الدور والأسواق...أما نعي الجاهلية فقال سعيد بن منصور أخبرنا بن علية عن بن عون قال قلت لإبراهيم أكانوا يكرهون النعي قال نعم قال بن عون كانوا إذا توفي الرجل ركب رجل دابة ثم صاح في الناس أنعي فلانا۔"

(فتح الباری لابن حجر، ج: 3، کتاب الجنائز، باب الرجل الذی ینعی الی اہلہ بنفسہ، ص: 116/117، ط: دار المعرفہ)

آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں ہے:

"سوال: کیا جنازہ یا گم شدہ چیز کا اعلان مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پر کرنا جائز ہے؟

جواب: نمازِ جنازہ کا اعلان تو نمازیوں کی اطلاع کے لیے صحیح ہے، مگر گم شدہ چیز کی تلاش کے لیے اعلان جائز نہیں۔"

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج: 3، مسجد کے مسائل، ص: 261، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں