میری والدہ نے اپنی جائیدادکا کچھ حصہ مسجد کی تعمیرکے لیے وصیت کردیا تھا،جائیداد بیچ کر ہم بہن ،بھائی اپنے شرعی حصے لے چکے ہیں ،لیکن وصیت کی رقم میرے پاس ہے ،میں بے روزگارہوں ،کاروبار کےلیے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے ،توکیا میں مسجد کی تعمیرکے لیے جو رقم والدہ نے وصیت کی تھی اُس کو بطورِ قرض لے کر کاروبار میں لگا سکتاہوں ؟تین ،چار ماہ میں واپس لوٹادوں گا۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ کی طرف سے مسجد کے لیے وصیت کردہ رقم سائل کے پاس امانت ہے،جس کو کاروبار میں لگانایا کسی کو بطورِ قرض دینایا خود بطورِ قرض لیناجائزنہیں ہے،بلکہ سائل پر لازم ہے کہ وہ اپنی والدہ کی وصیت کے مطابق مذکورہ رقم کو جتنی جلدی ہو سکے مسجد کی تعمیر میں لگادے۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن".
(کتاب الوقف ،351/4، ط: سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر و لاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."
(كتاب الوديعة،الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها،388/4، ط:دارالفکر)
سراجی میں ہے:
"تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ :۔۔۔۔۔ثم تنفذ وصایاہ من ثلث مابقی بعدالدین ثم یقسم الباقی بین ورثتہ۔۔۔۔الخ"
(ص: 6،7، ط: مکتبۃ البشرٰی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن