بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لئے وقف جگہ پر دکانیں بنانا


سوال

جو جگہ مسجد کے لیے وقف یا الاٹ کی گئی ہو وہان دکان بنانا جائز ہے یا نہیں ؟جبکہ وقف یا الاٹمنٹ کے وقت دکان بنانے کی کوئی تصریح نہ کی گئی ہو؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد کے لئے موقوفہ جگہ دو طرح سے استعمال کی جاتی ہے، ایک جگہ پر شرعی مسجد بنائی جاتی ہے اور باقی جگہ مصالح مسجد کے لئے استعمال ہوتی ہے، اس میں امام اور مؤذن وغیرہ کے مکانات بنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح خالی جگہ پر مسجد کی آمدنی کے لئے دکانیں تعمیر کی جاتی ہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں جس جگہ پر شرعی مسجد بنائی جائے، اس جگہ پر مسجد کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بنائی جاسکتی۔ البتہ شرعی مسجد کے علاوہ دوسری خالی جگہ پر مسجد کے لئے دکان بنائی جا سکتی ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب. اهـ.

وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا لأنه من  المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجدا ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه وفي جامع الفتوى إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق."

(البحرالرائق، کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، 271/5، دارالكتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں