بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے زبردستی چندہ وصول کرنا اور ایک خاص مقدار پر اصرار کرنا


سوال

ایک مسجد کی تعمیر میں  فی فرد  پچیس ہزارروپے چندہ مقررکیا جاتا ہے کہ اس سے کم نہیں دے سکتے ،  اگر  اس سے زیادہ دینا ہے  تو دے دومگر اس سے کم نہیں ،کیا اس طرح چندہ کرنا شرعاًجائز ہے؟جب کہ اس گاؤں میں امیر وغریب دونوں قسم کے لوگ رہتے ہیں،نیز اگر اس طرح چندہ کرکے مسجد تعمیر کی جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد اللہ تعالی کا گھر ہے اور اس کی تعمیر کرنے کو ایمان کی علامت قراردیا گیاہے،لہذا ہرمسلمان کا اپنی استطاعت کے بقدر مسجد کی جملہ ضروریات میں خرچ کرناباعثِ اجروثواب ہے ،تاہم   کسی  شخص پر چندہ دینے میں زبردستی کرنا اور  متعین مقدار میں چندہ دینے پر اصرار کرناکہ اس سے کم نہ ہو  ، جائز نہیں ہے ،  اگر اس طرح  زبردستی کرکےچندہ وصول کر لیاگیا ہے تو اسے واپس کرناضروری ہے، مسجد کی ضروریات میں اسے خرچ کرنا شرعاًناجائزہے ۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرّة الرقاشي عن عمه قال : قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم : ألا تظلموا ألا لا يحلّ مال امرئ إلاّ بطيب نفس منه " .

(مشکوۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ،رقم الحدیث:۲۹۴۶،ج:۲،ص:۸۸۹،ط:المکتب الاسلامی)

ردالمحتار میں ہے:

"قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك ‌مالاً ‌خبيثاً ومالاً سببه الخبيث والطيّب فيكره؛ لأنّ الله تعالى لا يقبل إلا الطيّب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله"۔

(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،  ج:۱،ص:۶۵۸،ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:جبراً کسی شخص کودباؤدےکر، چندہ وصول کرنامسجد کے واسطے، کیسا ہے؟

جواب:ایساکرنا ہرگزجائزنہیں،اگر ایسا کیا ہے تو اس چندہ کی واپسی لازم ہے، اس کو مسجدوغیر ہ میں خرچ کرنا منع ہے۔"

(فتاوی محمودیہ،کتاب الوقف،باب احکام المساجد،جلدپانزدہم، ص:۱۵۷،ط:ادارہ الفاروق کراچی)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144306100070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں