ایک عرصہ قبل ہمارے گاؤں میں نمازیوں کے بڑھنے اور مسجد میں جگہ تنگ ہونے کی بنا پر ایک بڑی جامع مسجد کی ضرورت پیش آئی، جس کے لیے گاؤں کے لوگوں نے گاؤں کے اندر مختلف مقامات پر اپنی زمینیں وقف کیں، ایک عورت نے بھی اپنی ایک زمین مسجد کے لیے وقف کر دی تھی، مگر عورت کی وقف کردہ زمین آبادی سے دور واقع ہونے کی بنا پر مسجد میں شامل نہ ہوسکی اور ضرورت سے زائد ہونے کی وجہ سے مسجد انتظامیہ نے اس وقف زمین کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں فروخت کر دیا، اس پر وقف کرنے والی عورت کے بھائی نے دعویٰ کیا کہ ہم اس موقوفہ زمین کے زیادہ حق دار ہیں، ہماری اجازت کے بغیر جو سودا کیا گیا ہے وہ درست نہیں، لہذا فلاں کے ساتھ خرید وفروخت کا جو معاملہ کیا گیا ہے اسے منسوخ کرکے ہم سے ازسرِنو سودا کریں۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس شخص کا یہ دعوی درست ہے یا نہیں؟ کیا پہلے جو معاملہ ہوا ہے اسے فسخ کرنا ضروری ہے؟
وقف جب درست اور صحیح ہوجائے تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ(گفٹ) کرنا، کسی کو مالک بنانا اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا۔
لہذا صورت مسئولہ میں مسجد انتظامیہ کا مسجد کے لیے موقوفہ زمین کو فروخت کرنا درست نہیں تھا، سابقہ بیع کو فسخ کرکے خریدار پر اس زمین کو واپس کرنا ضروری ہے اور مسجد انتطامیہ پر اس کی رقم واپس کرنا لازم ہے۔نیز عورت کے بھائی کے لیے بھی اس زمین کافروخت کرنا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر عورت کی جانب سے وقف شدہ زمین آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے مسجد میں شامل نہیں کی جاسکتی تو اس زمین کو مسجد کے مصالح میں سے ایسی تعمیر کرسکتے ہیں جس میں مسجد کے تقدس کے خلاف یا شرعاً ممنوعہ کوئی کام نہ ہو، مثلاً دکانیں وغیرہ بنا کر کرائے پر دے دیں اور ان کا کرایہ مسجد کے اخراجات میں خرچ کریں۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."
(کتاب الوقف،الباب الأول في تعريفه وركنه وسببه وحكمه وشرائطه،ج2،ص350،ط؛دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100277
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن