بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف کردہ زمین بیچنا جائز نہیں


سوال

میں نے ایک زمین مسجد کے لیے وقف کی  اس شرط پر کہ مسجد دیوبندی مکتب فکر کے لوگوں کے پاس رہے گی، باقاعدہ اس کی بنیاد رکھی اور چندہ کے لیے مسجد کا پیڈ بھی بنوایا، اس کے کچھ عرصے کے بعد مجھے اس علاقے سے جانا پڑا تو میں نے وہ زمین فروخت کردی، فروخت اس لیے کی کہ اس علاقے میں غیر دیوبندی مکتب فکر کے لوگ زیادہ ہیں، اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مسجد کے امور (امامت، نظامت وغیرہ) اپنے قبضے میں لے لیں گے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ میرا اس زمین کو فروخت کرنا شرعاً درست ہے یا غلط؟

نیز اب میری وقف کردہ زمین کے قریب میں دوسری جگہ پر ایک مسجد تعمیر ہورہی ہے تو اس صورت میں میرے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے  مذکورہ زمین جب مسجد کے لیے وقف کی تو وقف کرتے ہی یہ زمین سائل کی ملکیت سے نکل گئی تھی، سائل کے لیے اس زمین کو فروخت کرنا شرعاً ناجائز تھا،  یہ بیع منعقد ہی نہیں ہوئی، یہ زمین اب بھی  مسجد ہی کی ہے، اس پر مسجد بنانا شرعاً ضروری ہے۔

باقی سائل نے چوں کہ وقف کرتے وقت یہ شرط لگائی تھی کہ "مسجد دیوبندی مکتبِ فکر کے لوگوں کے پاس رہے گی" اس لیے اس شرط کی پاسداری ضروری ہے، غیر دیوبندی لوگوں کا اس مسجد کو اپنے قبضے میں لینا شرعاً ناجائز ہے،جب سائل کو خدشہ ہے کہ ا س پر دوسرے لوگ قبضہ نہ کریں،تو اس کے لئے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ٹرسٹ وغیرہ بنوا لیا جائے اور خود یا کسی ذمہ دار کو نگران مقرر کیا جائے۔

درِ مختار میں ہے:

"(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)۔"

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر۔"

(رد  المختار مع الدر المختار، ج: 4، كتاب الوقف، ص: 352، ط: ايچ ايم سعيد)

درِ مختار میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به۔"

رد المحتار میں ہے:

"(قوله أي في المفهوم والدلالة إلخ) كذا عبر في الأشباه والذي في البحر عن العلامة قاسم في الفهم والدلالة وهو المناسب۔"

(رد المحتار مع الدر المختار، ج: 4، كتاب الوقف، ص: 433، ط: ايچ ايم سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں