بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے اضافی ٹائل کو اپنے تصرف میں لانے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفیتانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں  کہ ایک شخص مسجد کو پرانے ٹائل دیتا ہے جن میں کچھ ٹائل مسجد میں استعمال ہونے والے تھے،کچھ ٹوٹے ہوئے کچھ  مختلف سائز اور کلر کے تھے ،جو ٹائل استعمال ہونے والے تھے ان کو مسجد کے کام میں استعما ل کرلیا گیا ہے،باقی ٹائل جو مختلف کلر کے مختلف سائز کے اور کچھ ٹوٹے ہوئے جو مسجد کے استعمال میں نہیں آسکتے تھے،ان میں سے کچھ ٹائل مسجد کمیٹی کے ایک ممبر  اپنے ذاتی استعمال کےلیے اپنے گھر لےکر گئے ،اس بات پر مسجد کے کچھ نمازیوں نے اعتراض کیا ہےکہ مسجد کمیٹی کا  ممبر  ٹائل اپنے گھر کیوں لےکرگیاہے،ان ٹائل کو پھینک کر ضائع کردولیکن کسی کودینامناسب نہیں ہے،اب سوال یہ ہے کہ آیا  یہ ممبر کمیٹی ان ٹائل کی قیمت ادا کرلے،یا اس کے علاوہ کوئی  اور تدارک  کاراستہ ہوسکتا ہے؟نیز  یہ یاد رہے کہ یہ ٹائل مسجد میں کے کام نہیں آسکتے کیوں کہ یہ مختلف سائز اور مختلف کلر کے اور ٹوٹے ہوئے ہیں ،اور آیا لوگوں کا یہ کہنا کہ ان کو ضائع کردیا جائے لیکن کسی کو دےنہیں سکتے ،درست ہے؟قرآن وسنت کی روشی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

  واضح رہے کہ مسجد کی مملوکہ چیز ٹائل اور پتھر  وغیرہ  اگر پرانی ہو کر   ناقابل انتفاع ہو جائیں  یا مسجد کی ضرورت سے زائد ہوں،تواس کو فروخت  کر کے اس کی قیمت کو مسجد کے مصارف میں  استعمال کیا جاسکتا ہے، تاہم  بہتریہ ہے کہ  اگر کسی اور مسجد میں استعمال کیے جاسکتے ہوں تو کسی اورمسجدمیں استعمال کیےجائیں۔

             صورت مسئولہ  میں اگر واقعۃً  ٹائل مسجد کی ضرورت سے زائد ہو اور مسجد میں استعمال نہ کیے جاسکتے ہو     تو ان ٹائل کو مارکیٹ ریٹ پر  بیچ کر مسجد  کی ضروریات  میں وہ پیسہ  لگائے ۔ کمیٹی کے ممبر کا اپنے ذاتی استعمال کے لئے گھر لے جانا درست نہیں، بلکہ یہ کمیٹی کے بارے میں بدگمانی کا باعث بھی ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ومثله حشيش المسجد إلخ) أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر، كما يفعل في بعض البلاد كبلاد الصعيد كما أخبرني به بعضهم قال الزيلعي: وعلى هذا حصير المسجد وحشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد وعند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر، وعلى هذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ينتفع بها اهـ وصرح في الخانية بأن الفتوى على قول محمد قال في البحر: وبه علم أن الفتوى على قول محمد في آلات المسجد وعلى قول أبي يوسف في تأبيد المسجد اهـ والمراد بآلات المسجد نحو القنديل والحصير، بخلاف أنقاضه لما قدمنا عنه قريبا من أن الفتوى على أن المسجد لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر۔" 

(کتاب الوقف،باب فرع بناء بيتا للإمام فوق المسجد،ج:4،ص:359،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311101464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں