بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے بجائے خانقاہ میں جماعت کروانا


سوال

ہمارے ہاں خانقاہ میں مسجد کو چھوڑ کر پانچوں وقت کی نمازیں خانقاہ میں پڑھتے ہیں، کیا اس طرح  کرنا ہمارے لیے ٹھیک ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   اگر خانقاہ میں  مسجدِ شرعی نہیں ہے، تو مسجد کی جماعت کو چھوڑ کر خانقاہ میں پانچوں نمازوں  کی جماعت  کروانے سے نماز تو درست ہوگی، ليكن  چو ں کہ  مسجد کی جماعت   بلا عذر ترک کرنا  ناجائز ہے، اس ليے بلا عذر  خانقاہ میں  مستقل پانچوں وقت کی نمازوں کی جماعت  کا معمول بنانا اور مسجد کی جماعت ترک کرنا  جائز نہیں ہے۔

"سنن ابي داؤد" ميں ہے:

"حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن أبي جناب، عن مغراء العبدي، عن عدي بن ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر»، قالوا: وما العذر؟، قال: «خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى."

ترجمہ:"حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو  نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے)  تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔"

(کتاب الصلوٰۃ، باب التشدید فی ترك الجماعة، ج:1، ص:151، ط: المکتبۃ العصریة بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل «أنه - عليه الصلاة والسلام - قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته: ما أجد لك رخصة» قال في الفتح: أي تحصل لك فضيلة الجماعة من غير حضورها لا الإيجاب على الأعمى، لأنه - عليه الصلاة والسلام - رخص لعتبان بن مالك في تركها."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:554،ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج، وإذا فاتته الجماعة لا يجب عليه الطلب في مسجد آخر بلا خلاف بين أصحابنا لكن إن أتى مسجدا آخر ليصلي بهم مع الجماعة فحسن وإن صلى في مسجد حيه فحسن وذكر القدوري أنه يجمع في أهله ويصلي بهم وذكر شمس الأئمة الأولى في زماننا إذا لم يدخل مسجد حيه أن يتبع الجماعات وإن دخله صلى فيه."

(کتاب الصلوٰۃ،الفصل الاول فی الجماعة ، ج:1، ص:82 ، ظ:رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں