بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے بیسمنٹ میں بیت الخلا بنانے اور مسجد کے ملبہ کا حکم


سوال

1۔ہمارے گاؤں چترال میں مسجد بنا رہے ہیں،بیسمنٹ کی چھت مسجد کابرآمدہ بنے گی اور گاہے گاہے اس پر بھی نماز پڑھیں گے، تو کیا بیسمنٹ میں واش روم کےلیے کھڈا کھودا جا سکتا ہے؟یہ جائز ہے یا نہیں؟

2۔مسجد شہید کرنے کے بعد اس کےملبے کو صحرا میں چھوڑ دیا جائےگا،لیکن خطرہ یہ ہے اس میں کوئی پیشاب کرے گایا کوئی اور گندگی لگ جائےگی،تو اس  صورت میں کیا ہم گناہ گار ہوں گے؟اس کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مسجد کے بیسمنٹ میں واش روم کے  لیے کھڈا کھدوانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مسجد تحت الثریٰ سے آسمان تک ہے اور مسجد کو ناپاک کرنا منع ہے۔

2۔مسجد  کا ملبہ قابلِ احترام ہے،ناپاک جگہ میں یا جہاں بے ادبی کا اندیشہ ہو وہاں نہ ڈالا جائے،مناسب ہے کہ اس ملبہ کواسی مسجد میں ہی کسی مناسب جگہ میں یعنی بنیاد وغیرہ میں استعمال کرلیا جائے ،اگر اس مسجد میں استعمال کی ضرورت نہ ہو تو فروخت کردینا بھی جائز ہے،بہتر یہ ہے کہ مسلمان کے ہاتھ فروخت کیا جائے اور اسے ہدایت کردی جائے کہ یہ مسجد کا ملبہ ہے،اسے ایسی جگہ استعمال کیا جائے جہاں بے ادبی نہ ہو،غیر مسلم کونہ بیچا جائے،اس کو بیچنے میں بے ادبی کا قوی اندیشہ ہے،نیز اس ملبہ کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو اسی مسجد کی ضروریاتِ تعمیر میں صرف کردیا جائے۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) كره تحريمًا (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقا بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه)."

وفي الرد تحته:

(قوله:  إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته ‌بيتا ‌للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحا."

وقال الرافعي تحته:

"الظاهر عدم الجوازوما يأتي متنا لايفيد الجواز لأن بيت الخلاء ليس من مصالحه علي ان الظاهر عدم صحة جعله مسجدا بجعل بيت الخلاء تحتة كما يأتي أنه لو جعل السقاية اسفله لا يكون مسجدا فكذا بيت الخلاء لأنهما ليسا من المصالح تأمل."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:656، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"وحاصله أن ‌شرط ‌كونه ‌مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله}."

(کتاب الوقف، ج:5، ص:271، ط:دار الکتاب الإسلامي)

الدر المختار میں ہے:

"ولا ترمى براية ‌القلم ‌المستعمل لاحترامه كحشيش المسجد وكناسته لا يلقى في موضع يخل بالتعظيم."

(رد المحتار، كتاب الطهارة، ج:1، ص:178، ط:سعيد)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"مسجد کا پرنا ملبہ اینٹ وغیرہ قابلِ احترام ہے،مناسب ہے کہ مسجد  ہی میں کسی مناسب جگہ استعمال کیا جائے...ناپاک جگہ اور جہاں بے ادبی ہووہاں استعمال نہ کیا جائے،اگر بیچنے کی ضرورت ہو توکسی مسلمان کو بیچا جائے اور اسے ہدایت کردی جائے کہ یہ مسجد کا ملبہ ہے،اسے ایسی جگہ استعمال کیا جائے جہاں بے ادبی نہ ہو،غیر مسلم کونہ بیچا جائے،اس کو بیچنے میں بے ادبی کا قوی اندیشہ ہے۔"

(ج:9،ص:152،ط:دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"مسجد کا پرانا سامان اور ملبہ جو اسی مسجد کی تعمیرِ جدید میں کام نہ آسکتا ہو،فروخت کردینا جائز ہے،بہتر یہ ہے کہ مسلمان کے ہاتھ فروخت کیا جائے اور اس کی قیمت کو اسی مسجد کی ضروریاتِ تعمیر میں یا جس قسم کا سامان تھا اسی کے مثل میں صرف کردیاجائے۔"

(ج:7،ص:67،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں