بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے صدقات کو ذاتی استعمال میں لانا


سوال

اگر کسی شخص پر قرضہ ہو اور اسے ادا کرنے کی وقعت اس میں نہ ہو،  اور ذریعہ معاش بھی نہ ہو تو آیا مدرسہ کےصدقات کی  مد میں سے وصول شدہ رقم کو اپنے اخراجات میں اور قرضہ کی ادائیگی كے ليے  استعمال کر سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   وقف مدرسے  كي  رقم کا مصرف مدرسے کے مصالح و مفاد ہے، کسی اور مصرف یا ذاتی ضرورت میں اس کا استعمال جائز  نہیں ہے؛  لہٰذا  صورتِ  مسئولہ میں     کسی شخص کے لیے   مدرسہ    کے لیے جمع شدہ صدقات (چاہے وہ  صدقاتِ واجبہ ہوں  یا  زکات  کے پیسے  ہوں، یا صدقاتِ نافلہ)  کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا یا اس سے اپنی ضروریا ت پوری کرنا جائز نہیں،  مدارس  کے وقف اموال اور ان کے مصارف بہت نازک اور قابلِ احتیاط امور ہیں،  قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا استحضار  رکھتے ہوئے ان  کا استعمال کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و أما حكمها: فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده و وجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني. الوديعة لاتودع و لاتعار و لاتؤاجر و لاترهن، و إن فعل شيئًا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق."

(الفتاوى الهندية - (4/338)، (الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها) .كتاب الوديعة، الناشر: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں