بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجدِ شرعی کو منتقل کرنا جائز نہیں


سوال

مسجد قباء اولڈ میڈیکل کالونی شیخ زاید ہسپتال رحیم یار خان میں واقع ہے، جو کہ آپریشن تھیڑ تھا، اسے 1950 یا 1960 کے درمیان اس وقت کے ایم ایس جناب گجر صاحب نے نمازیوں کے حوالے کیا اور اس جگہ مسجد بنائی گئی، جس میں آج 2021 تک پنج وقتہ نماز اور جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ ہسپتال کی توسیع کا منصوبہ پانچ سال سے جاری ہے، جس وقت نقشہ بن رہا تھا، انہیں بتایا بھی گیا کہ مسجد کو نقشے میں شامل کیا جائے، لیکن انہوں نے شامل نہیں کیا اور نقشہ تیار ہوگیا، جس میں مسجد کا وجود نہیں اور اب وہ مسجد کو شہید کرنا چاہتے ہیں اور دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتے ہیں اور امام کو بھی مکان چھوڑنے کا حکم کیا ہے۔ ہسپتال کو تعمیر ہونے میں ابھی بھی پانچ سال کا عرصہ درکار ہے۔ لہذا شریعت کی روشنی میں بتایا جائے کہ جس جگہ مسجد بن جائے تو اسے شہید کرکے دوسری جگہ منتقل کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جو جگہ ایک بار مسجد بن جاتی ہے تو وہ قیامت تک کے لیے مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے، اس کو شہید کرنا اور دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہوتا، سوال میں ذکرکردہ مسجد جب ہسپتال کے ایم ایس کی اجازت سے تعمیر ہوئی تھی، انہوں نے خود بھی اس میں نمازیں پڑھی تھی، حکومت نے بھی ستر سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود کچھ نہیں کہا اور ان کے سامنے مذکورہ مسجد میں باقاعدہ پنج وقتہ نماز اور جمعہ کی نماز ہوتی رہی تو یہ اس کے مسجد شرعی ہونے کی دلیل ہے، لہٰذا مذکورہ مسجد کو شہید کرنا ہر گز جائز نہیں، اس کو اپنے حال پر باقی رکھنا اور اس کے تمام حقوق اور احترام کو باقی رکھنا ضروری ہے، ہسپتال کی انتظامیہ بھی اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، نئے نقشے میں مذکورہ مسجد کو بھی داخل کرے، نئے نقشے میں مسجد کو شامل نہ کرکے، اس کی وجہ سے خانہ خدا کو شہید کرنا اور اللہ کے غضب کو دعوت دینا درست نہیں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

(ولو خرب ما حوله واستغني عنه، يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسی.

(قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوی، حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه، مجتبى، وهو الأوجه، فتح. اه. بحر.

(ج:4، ص:358، کتاب الوقف، مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيرہ، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

وأشار بإطلاق قوله: ويأذن للناس في الصلاة، أنه لا يشترط أن يقول: أذنت فيه بالصلاة جماعة أبدا، بل الإطلاق كاف ۔۔۔ الی قولہ: وقد رأينا ببخارى وغيرها في دور وسكك في أزقة غير نافذة من غير شك الأئمة والعوام في كونها مساجد ‌،فعلى ‌هذا ‌المساجد التي في المدارس بجرجانية خوارزم مساجد، لأنهم لا يمنعون الناس من الصلاة فيها وإذا أغلقت يكون فيها جماعة من أهلها. اهـ ۔۔۔ الی قولہ: بنى في فنائه في الرستاق دكانا لأجل الصلاة يصلون فيه بجماعة كل وقت، فله حكم المسجد.

(ج:5، ص:269/ 270، کتاب الوقف، فصل اختص المسجد باحکام ۔۔۔ الخ، ط:دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں