بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کو مرحومہ والدہ کے نام سے موسوم کرنا


سوال

کیا مرحومہ والدہ کے نام پر مسجد کا نام رکھا جا سکتا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ مرحومہ والدہ کے نام پر مسجد کا نام رکھا جاسکتا ہے، ’’ آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ (244/3) میں ہے: ’’مسجد کی نسبت کسی شخص کی طرف اس کے بانی کی حیثیت سے جائز ہے‘‘۔ البتہ خواتین کے نام کا اخفاء بہتر ہے۔

’’عن عبد اللّٰه بن عمر رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم سابق بین الخیل التي أُضمرت من الحفیاء وأمدُها ثنیة الوداع، وسابق بین الخیل التي لم تُضمر من الثنیة إلی مسجد بني زُریق، وأن عبد اللّٰه بن عمر کان فیمن سابق بها‘‘. (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب هل یقال: مسجد بني فلان رقم: ۴۲۰ دار الفکر بیروت)
’’ویستفاد منه جواز إضافة المساجد إلی بانیها أو المصلي فیها، ویلتحق به جواز إضافة أعمال البر إلی أربابها‘‘. (فتح الباري / باب ہل یقال مسجد بني فلان ۲؍۷۷ رقم: ۴۲۰ نزار مصطفیٰ الباز مکة المکرمة، ۱؍۵۱۵ دار الفکر بیروت، عمدۃ القاري / باب هل یقال مسجد بني فلان ۲؍۱۵۹ دار الفکر بیروت) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں