بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

"مسجد کو سیمنٹ کی بوری اس وقت دیں جب آپ کے محلے میں آٹے کی بوری لینے والا کوئی نہ ہو" جیسے جملے کہنا


سوال

مسجد کو سیمنٹ کی بوری اس وقت دیں، جب آپ کے محلے میں آٹے کی بوری لینے والا کوئی  نہ ہو، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

رسول اللہ ﷺ نے ہجرتِ مدینہ منورہ کے فورًا بعد مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی، اور اس کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حصہ لیا، جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس وقت سخت مالی مشکلات سے گزر رہے تھے، یہاں تک کہ مہاجرین کے پاس رہائش اور کھانے تک کا انتظام نہیں تھا، اسی طرح مختلف غزوات میں دینی خدمات کو اتنی ترجیح دی گئی کہ پیٹ پر پتھر باندھ دیے گئے لیکن دینی تقاضے کو مقدم رکھا گیا، لوگوں نے دن بھر محنت مزدوری کرکے جو کمایا وہ سب کا سب اللہ کے راستے میں پیش کردیا، کچھ نہ ملا تو کھجور کی چھال لا کر وہی خدمتِ اقدس میں دے دی۔ اسوۂ نبوی میں ہمیں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ ذاتی تقاضوں کے مقابلے میں اجتماعی اور دینی تقاضوں کو ترجیح دی گئی، پیٹ کاٹ کر لوگوں نے دین کی سربلندی کے لیے جان توڑ قربانیاں دیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی مراسم کی نگہبانی صرف مال داروں کے ذمے نہیں ہے، بلکہ فقراء کے ذمے بھی اپنی حیثیت کے مطابق فی سبیل اللہ انفاق کا حکم ہے۔

نبی کریم ﷺکے دورِ مبارک میں نیز خلفائے راشدین کے ادوار میں جہاں معاشرے میں غرباء فقراء موجود ہوتے تھے وہیں مساجد کا سلسلہ بھی قائم رہتا تھا، کہیں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ مساجد کی تعمیر یا اس طرح کے دیگر کاموں کو موقوف کرکے یہ حکم دیاگیا ہو کہ ساری رقم لوگوں کی فلاح و بہبود پرخرچ کی جائے، اور غور کیا جائے تو اسلام نے مساجد و مدارس کی تعمیر اور فقراء کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مدّات ہی مختلف مقرر کی ہیں، فقراء کا حق زکات، صدقۂ فطر اور دیگر واجب صدقات میں ہے، اور یہ رقوم مساجد و مدارس وغیرہ کی تعمیر میں صرف ہی نہیں کی جاسکتیں، جب کہ مساجد وغیرہ کی تعمیر خالص عطیات یا نفلی صدقات سے ہی کی جاسکتی ہیں، یوں فقراء کی حق تلفی کا دروازہ اسلام نے اَز خود بند کردیا ہے۔

بہرحال "مسجد کو سیمنٹ کی بوری اس وقت دیں جب آپ کے محلے میں آٹے کی بوری لینے والا کوئی  نہ ہو" جیسے خوش نما جملے  کہنا عام طور پر ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو دین  بے زار،عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ سے محروم  ہیں، ایسے لوگ فقط ظاہری طور پر انسانیت کے ساتھ ہم دردی کا دم بھرتے ہیں، حقیقتًا ان کے دل دین، اور انسانیت کی ہم دردی سے خالی ہوتے ہیں۔ ایسے جملے غریبوں کی ضرورت کے احساس سے زیادہ مساجد دشمنی کا زہر اگل رہے ہوتے ہیں۔ 

اس سلسلہ میں یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے اعمال میں تقابل کی فضا قائم کرنے کو پسند نہیں کیا، بلکہ بقدر استطاعت جب جب ممکن ہو نیک اعمال کے بجالانے کا حکم دیاہے۔ نیک اعمال میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنا، مساجد و مدارس کے ساتھ تعاون کرنا دونوں صورتیں شامل ہیں؛ لہذا جس شخص کو جس عمل کی توفیق ملے اسے اس عمل کی ادائیگی میں پس وپیش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ توفیق ملتے ہی نیک عمل کرلینا چاہیے، اور ہر کارِ خیر میں اپنا حصہ شامل کرنا چاہیے۔

ہاں! کرنے کا کام اور ترغیب کی بات یہ ہے کہ جب اِرد گرد فقراء موجود ہوں تو آدمی کو لاکھوں روپے مالیت کے موبائل فون، گاڑیاں اور دیگر اسبابِ تعیش چھوڑ کر فقراء کی مدد کرنی چاہیے،  فضول خرچیوں اور عیاشیوں کے بجائے نیکی کے راستے میں اپنا مال خرچ کرنا چاہیے، نہ کہ لوگوں کو اعمال صالحہ اور انفاق فی سبیل اللہ کی بعض صورتوں سے محروم کرنے کے ساتھ ایسے تقابلی جملوں کی تشہیر کرکے ذہنی طور پر تشویش میں مبتلا کرنا چاہیے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ غریبوں کی ضروریات اور مساجد کی تعمیر دونوں میں حصہ لینے والے نیک صفت افراد ہی ہواکرتے ہیں جو اس طرح کی  تقابلی سوچ سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں؛ لہذا ان باتوں پر دھیان دیے بغیر نیک اعمال میں بقدر وسعت حصہ لیتے رہنا چاہیے، چاہے کسی غریب کی ضرورت کے لیے آٹے کی بوری کی صورت میں ہو یا مسجد کی تعمیرکے لیے سیمنٹ کی بوری کی صورت میں۔  جہاں نیکی کے دیگر کام ہورہے ہوں اور دینی اداروں پرخرچ کی ضرورت بھی ہو ایسے موقع پر دینی اداروں پر خرچ کے بجائے اس نیت سے اپنے آپ کو روک کر رکھنا کہ اس کے بجائے غریب کو تلاش کیاجائے، یہ درست نہیں۔ ہاں! جہاں کہیں غریب افراد موجود ہوں اور وہاں دینی ادارے بھی قائم ہوں تو دینی اداروں کے تعاون کے ساتھ ساتھ مالی صدقہ کرنا یقینًا بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے۔  اسلام نے  غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے زکاۃ، صدقۃ الفطر، عشر، کفارات، نذور، میراث، دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کانظام وضع کیا ہوا ہے، شرعی اَحکام کی رعایت کے ساتھ اگر ان واجب صدقات کو ادا کیا جائے تو معاشرے میں غریبوں کی ضروریات احسن طریقے سے مکمل ہوسکتی ہیں، نہ یہ کہ اسلام کے ہی احکامات کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202549

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں