بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی ضروریات کے لیے وقف زمین سے متعلق احکامات


سوال

۱۔ہمارے پرداد ا نے تقریباً سوسال قبل تقریباً ایک سوپچاس کنال زمین کا رقبہ مسجد امام ابوحنیفہ کے لیے یہ کہہ کر وقف کیا تھا کہ" اس جگہ کو گاؤں کے لوگوں پر فروخت کرکے مسجد کی جملہ ضروریات کوپورا کیا جائے گا"،پھر کافی عرصہ تک وہ زمین فارغ پڑی رہی ، اس سے مسجد کوکوئی فائدہ نہیں ہورہاتھا، لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے،گھاس کاٹنے کی صورت میں مٹی اٹھاکرلے جاتے تھے،پھر مسجد  کمیٹی  نےوہ زمین فروخت کرکےمسجد کی توسیع اورنئی تعمیر پررقم لگائی ا ورباقی ماندہ رقم سےمسجد کے لیے دکانیں خریدیں  جن سے مسجد کی جملہ ضروریات   کو پورا کیا جاتا ہے ۔کیا مسجد کمیٹی کا یہ فعل شرعاً درست ہے؟

۲۔ مذکورہ زمین کے کچھ حصے پر ایک اور مسجد تعمیر کی ہے ،کیا اس حصے کی رقم اداکرنی پڑےگی جبکہ پہلی مسجد کے تمام اخراجات دیگر ذرائع سے پورے ہورہے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں ہے ؟ اسی مسجد کے ساتھ ہی ایک مدرسہ بھی تعمیر ہونے والا ہے اور مدرسہ والے حصہ  کی رقم ادا کردی ہے۔

۳۔مذکورہ زمین   جن لوگوں پر فروخت کی ہے ، فروخت کرنے سےپہلے ان سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ"یہ زمین آگے فروخت نہیں کرنی، اگر  کربھی دی تو منافع مسجد میں جمع کرانا ہوگا"، ایک شخص نے زمین آگے فروخت کرکے اس کا منافع مسجد میں جمع کرادیا لیکن  بعض لوگوں نے  زمین فروخت کرکے اس کا منافع مسجد میں جمع نہیں کرایا۔ان لوگوں کا یہ منافع استعمال کرنا کیسا ہے؟۔

۴۔اسی طرح معاہدہ میں یہ بھی طے ہوا تھاکہ" اس زمین پر مکان بنانے ہیں لیکن اپنے نام پر منتقل نہیں کروانے ہیں"، بعض لوگوں نے مکان اپنے نام پر منتقل کروایا ہے۔ان لوگوں کااپنے نام پر منتقل کرواناکیسا ہے؟۔

۵۔بعض لوگوں اسی زمین کاکچھ حصہ غصب کرکے اس پر مکان بنائے ہیں ، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟بعض لوگوں نے جگہ غصب کی ہے ، اس پر کاشتکاری کرتے ہےاور قبضہ نہیں چھوڑتے، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

۱۔صورتِ مسئولہ میں سائل کے پردادا(واقف) نےمذکورہ زمین چونکہ یہ کہہ کروقف کی تھی کہ"اس جگہ کو گاؤں  والوں پر فروخت کرکے مسجد کی جملہ ضروریات کو پورا کیاجائے " تو ایسی صورت میں مسجد کمیٹی کا مذکورہ زمین  فروخت کرکے مسجد کی نئی تعمیر اور تو سیع میں رقم صرف کرنا اوباقی ماندہ رقم سے دکانیں خرید کر ان سے مسجد کی جملہ ضروریات   کوپورا کرنا  چونکہ واقف کی شرط کے مطابق ہے ،لہذا مسجد کمیٹی کا ایسا کرنا شرعاً درست ہے۔

۲۔واضح رہے کہ مسجد کی زمین جو مسجدسے علیحدہ ہواور مسجد کے لیے وقف ہو اور واقف نے اس بات کی تصریح کردی ہو کہ اسے فروخت کرکے اس سے مسجد کی  جملہ ضروریات کو پورا کیا جائے تو  اس زمین پر مسجد بنانا صرف اس صورت میں جائز  ہوسکتاہے کہ مسجد موقوف علیہ کی آمدنی کے اور ذرائع موجود ہوں اور اس کا اتنا مال جمع ہو کہ اس زمین  کی آمدنی کی اسے فی الحال اور آئندہ کسی بھی صورت میں ضرورت  نہ ہو اور اس زمین کی آمدنی کے ضائع ہونے یا غیر مصرف میں خرچ  ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں  اس زمین پر مسجد بنانا جائز ہے ، لہذا   صورتِ مسئولہ میں چونکہ مسجد (اوّل) کی آمدنی   کے  دیگر ذ رائع موجود ہیں جن سے اس کی تمام ضروریات پوری ہورہی ہیں تو ایسی صورت میں مسجد( اوّل)کی ضروریات کے لیے وقف شدہ زمین پر دوسری مسجد بنادینا جائز ہے اور  جس حصے پر دوسری مسجد تعمیر ہوئی ہے اس کی رقم ادا  کرنی ہوگی۔باقی مذکورہ زمین کا جو حصہ مدرسہ کے لیے خریدا ہے اس پر مدرسہ بنانا جائز ہے ،اس حصہ کی فروخت سے آنے والی رقم کو مسجد کے مصارف میں خرچ کیا جائے ۔

۳۔۴۔واضح رہے کہ  بیع میں کوئی ایسی شرط لگانا جس میں فریقین میں سے کسی ایک کافائدہ ہو تو ایسی شرط لگانا فاسد ہے اور اسی شرطِ فاسد کی وجہ سے شرعاً پورا معاملہ ہی فاسد ہوجاتا ہے ۔ مذکورہ تفصیل کی رو سےصورتِ مسئولہ میں مذکورہ خریداری(سودا)کے معاملہ کےوقت  مذکورہ زمین کے بارے میں بائع)مسجد کمیٹی)کا  خریدار سے یہ شرط لگانا کہ" یہ زمین آگے فروخت نہیں کرنی، اگر کربھی  دی تو منافع مسجد میں جمع کرانا ہوگا،اور"اس زمین پر مکان بنانے ہیں لیکن اپنے نام پر منتقل نہیں کروانےہیں"تو  اس شرط میں چونکہ بائع کا فائدہ ہے لہذایہ شرط فاسد قرار پائی  اور  شرطِ فاسد کی وجہ سے پورا معاملہ ہی فاسد ہوگیا ،  بیع فاسد کو ختم کرنا عاقدین پر شرعاً ضروری ہوتاہے، لہذا عاقدین اس معاملے کو فسخ کرتے ہوئے مشتری نے  جوقیمت ادا کی ہے وہ بائع  اسے  واپس کردے اور مشتری  بائع کومبیع(زمین) واپس کردے۔

آئندہ کے لیے جب معاملہ کرنا چاہیں تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ مذکورہ زمین فروخت کرتے وقت مذکورہ بالادونوں شرطیں نہ لگائیں تاکہ خریدار ا  س میں  جس طرح سے بھی چاہے تصرف کر سکے، اس لیے کہ انسان اپنے ملکیت کے بارے میں خودمختار ہوتا ہے  اور اس میں وہ اپنے اختیار سے جس طرح بھی چاہے تصرف کرسکتا ہے۔

۵۔واقف نے مذکورہ زمین مسجد کی ضروریات کے لیے وقف کی ہے ، لہذا مذکورہ زمین غصب کرکے اس پر مکانات تعمیر کرنا،اورکاشتکاری کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، جن لوگوں نے مذکورہ زمین غصب کرکے اس پر مکانات تعمیرکیے ہیں اگرمذکورہ عمارت کو ہٹانا مذکورہ موقوفہ زمین کے لیے نقصان دہ نہ ہوتو  غاصب اپنی عمارت کوہٹاکر موقوفہ زمین  متولی کوواپس کردے ، اور اگر عمارت کوہٹانا  مذکورہ موقوفہ زمین کے لیے نقصان دہ ہو تو ایسی صورت میں  متولی وقف کے منافع سے غاصب کو ملبےکا خرچ دے کر  موقوفہ زمین  عمارت سمیت واپس لے لے اور ایسی صورت میں  عمارت بھی موقوفہ  سمیت وقف میں شامل ہوجائیں گی۔باقی جولوگ   مذکورہ موقوفہ زمین کو معطل رکھ کر اس پر کا شتکاری کر رہے ہیں ان پر لازم ہے کہ موقوفہ زمین واپس کردیں، البتہ جتنا عرصہ تک انہوں نے  اسے معطل رکھ کراس پر کاشتکاری کی ہے اس کی اجرِ مثل(اُس جیسی زمین سے انتفاع کی اجرت) دینا لازم ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

إن ‌شرائط ‌الواقف ‌معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به.  قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم .

(رد المحتار ، کتاب الوقف، مطلب متی ذکر للوقف مصرفاً....،ج:۴،ص:۳۶۶،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

في فتاوى النسفي: سُئل شيخ الإسلام عن أهل قرية افترقوا وتداعى مسجد القرية إلى الخراب وبعض ‌المتغلبة يستولون على خشب المسجد وينقلونه إلى ديارهم هل لواحد من أهل القرية أن يبيع الخشب بأمر القاضي ويمسك الثمن ليصرفه إلى بعض المساجد أو إلى هذا المسجد، قال: نعم، كذا في المحيط .

(فتاوی ہندیہ، کتاب الوقف،الباب الثالث عشر فی الاوقاف التی یستغنی عنہا، ج:۲،ص:۴۷۸،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصحّ أنه لا يجوز كذا في الغياثية .

(فتاوی ہندیہ، کتاب الوقف، الباب الثانی فی ما یجوز وقفہ ومالایجوز، ج:۲،ص:۳۶۲،ط:رشیدیہ)

فتح القدیر میں ہے:

كل شرط يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري لا يفسد العقد لثبوته بدون الشرط، وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة ‌لأحد ‌المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأنّ فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدّي إلى الربا، أو لأنّه يقع بسببه المنازعة فيعرى العقد عن مقصوده إلا أن يكون متعارفاً؛ لأنّ العرف قاض على القياس، ولو كان لا يقتضيه العقد ولا منفعة فيه لأحد لا يفسده وهو الظاهر من المذهب كشرط أن لا يبيع المشتري الدابة المبيعة؛ لأنّه انعدمت المطالبة فلا يؤدّي إلى الربا، ولا إلى المنازعة.

(فتح القدیر،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد،ج:۶،ص:۴۴۲،ط:دار الفکر)

در مختار میں ہے:

(وإذا قبض المشتري المبيع برضا) عبر ابن الكمال بإذن (بائعه صريحاً أو دلالةً) بأن قبضه في مجلس العقد بحضرته (في البيع الفاسد) ... (ملكه) .... (بمثله إن مثليّاً وإلاّ فبقيمته) يعني إن بعد هلاكه أو تعذّر رده   ..... (و) يجب (على كل واحد منهمافسخه قبل القبض) ويكون امتناعاً عنه ابن ملك (أو بعده ما دام) المبيع بحاله جوهرة (في يد المشتري إعداماً للفساد) ؛ لأنّه معصية فيجب رفعها بحر .

(در مختار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:۵،ص:۸۸۔۹۱،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

للمالك ‌أن ‌يتصرّف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفاً يتعدّى ضرره إلى غيره أو لا يتعدّى .

(بدائع الصنائع، کتاب الدعوی،فصل فی بیان حکم الملک والحق الثابت فی المحل، ج:۶،ص:۲۶۴،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

 

ولو غصبها من ‌الواقف أو من واليها غاصب فعليه أن يردّها إلى ‌الواقف،فإن أبى وثبت غصبه عند القاضي حبسه حتى ردّ، فإن كان دخل الوقف نقصٌ غرم النقصان ويصرف إلى مرمّة الوقف، ويعمر به ما انهدم منه، ولا يقسم بين أهل الوقف، كذا في المحيط .  فإن كان الغاصب زاد في الأرض من عنده إن لم تكن الزيادة مالاً متقوّماً بأن كرب الأرض أو حفر النهر أو ألقى في ذلك السرقين واختلط ذلك بالتراب وصار بمنزلة المستهلك فإن القيّم يسترد الأرض من الغاصب بغير شيء، وإن كانت الزيادة مالاً متقوماً كالبناء والشجر يُؤمر الغاصب برفع البناء وقلع الأشجار وردّ الأرض إن لم يضر ذلك بالوقف، وإن كان أضرّ بالوقف بأن خرب الأرض بقلع الأشجار والدار برفع البناء لم يكن للغاصب أن يرفع البناء أو يقلع الشجر إلا أنّ القيم يضمن قيمة الغراس مقلوعاً وقيمة البناء مرفوعاً إن كان للوقف غلّة في يد المتولي يكفي لذلك الضمان،  وإن لم يكن للوقف غلّة فيعطى الضمان من ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان . 

(فتاوی ہندیہ، کتاب الوقف،الباب التاسع  فی غصب الوقف،ج:۲،ص:۴۴۷،ط:رشیدیہ)

 

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

ولا يضمن الغاصب منافع ما غصبه إلاّ أن ينقص باستعماله فيغرم النقصان.(ولا يضمن الغاصب منافع ما غصبه) من ركوب الدابة وسكنى الدار وخدمة العبد؛ لأنّها حصلت على ملك الغاصب لحدوثها في يده، والإنسان لا يضمن ما حدث في ملكه، سواءٌ استوفاها أوعطّلها، وهذا فيما عدا ثلاثة مواضع فيجب فيها أجر المثل على اختيار المتأخرين وعليه الفتوى، وهي: أن يكون وقفاً أو ليتيم أو معداً للاستغلال بأن بناه أو اشتراه لذلك إلاّ إذا سكن المعد للاستغلال بتأويل ملك كسكنى أحد الشريكين أو عقد كسكنى المرتهن (إلا أن ينقص) المغصوب (باستعماله) : أي الغاصب (فيغرم النقصان) لاستهلاكه بعض أجزاء العين .

.(اللبا ب فی شرح الکتاب، کتاب الغصب، ج:۲،ص:۱۹۵،ط:المکتبۃالعلمیۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں