بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی ضروریات کے لیے وقف دکانیں اور مکانات پگڑی پر فروخت کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ حضرات اس مسئلہ کے متعلق کہ ہماری میمن برادری نے "کاٹھیاواڑ کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی" کے نام سے ایک سوسائٹی بنائی  تھی ، جس میں   Aبلاک، Bبلاک اور C، بلاک تین الگ الگ بلاک قائم کیے گئے تھے،حکومت کی طرف سے سوسائیٹیز کو اس بات کا پابند کیاجاتا ہے کہ وہ رہائشی لوگوں کی سہولت کے لیے مساجد، شادی ہال، اسکول ، پارک اور پلے گراؤنڈ قائم کریں، جب سوسائٹی ان تمام کاموں کے لیے جگہ مختص کرلیتی ہےاور نقشہ حکومتی اداروں کو دِکھایاجاتا ہے تو حکومت اس نقشے کو اُسی وقت پاس کرتی ہے جب اُس سوسائٹی میں یہ تمام چیزیں موجود ہوں، اب درج بالا تفصیل کی روشنی میں چند درج ذیل امورقرآن و سنت کی روشنی میں دریافت طلب ہیں:

1: کاٹھیاواڑ سوسائٹی نے بلاک A میں " مکہ مسجد" کے نام پر ایک جگہ مختص کی تھی ، جو تقریباً تین ہزار پانچ سو (3500) گزپر مشتمل ہے، اسے ایمنٹی پلاٹ کہاجاتا ہے، چنانچہ سوسائٹی نے مذکورہ زمین کے کچھ حصہ پر مسجد تعمیر کردی،اور بقیہ جگہ پر مارکیٹ اور فلیٹ بنادیے گئے، اور اسی طرح ایک حصہ پر صرف مارکیٹ تعمیر کردی، جو تقریباً 33 دکانوں پر مشتمل ہے،اس وقت مذکورہ تعمیرات کے حوالہ سے نیت یہ تھی کہ ان دوکانوں اور فلیٹوں سے جو کرایہ آئے گا، اس سے مسجد کے اخراجات پورے کیے جائیں گے،لیکن کاٹھیاواڑ سوسائٹی کے سابقہ ذمہ داران نے ان دوکانوں اور فلیٹوں کو لوگوں کو پگڑی پر فروخت کردیا، آیاایمنٹی پلاٹ جو مسجد کے لیے وقف ہے اس پر دوکانیں تعمیر کرکے پگڑی پر فروخت کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟نیز جو رقم پگڑی کی مد میں حاصل کی گئی ہے وہ حلال ہے یا نہیں؟

2: جن لوگوں نے پگڑی پر مذکورہ دوکانیں یا فلیٹ خریدے تھے،کیا وہ مسجد کے لیے وقف شدہ زمین پر بنائے گئے فلیٹ اور دوکانوں کے  مالک ہوسکتے ہیں یا نہیں؟

3: اب سوسائٹی میں نئے ممبران بنے ہیں، جو کہ سوسائٹی کی مذکورہ مسجد کی توسیع چاہتے ہیں ، لہذا وہ دوکانداروں کو وہاں سے ہٹانا چاہ رہے ہیں ، تواس بنیاد پر دوکانداروں کا مطالبہ ہے کہ انہیں معاوضہ دیا جائے یا پھر دوکان کے بدلے دوکان دی جائے، جب کہ پچھلے 30 سے 40 سالوں سے دوکاندار دکانوں اور فلیٹ کے رہائشی فلیٹوں سے فائدہ اٹھاچکے ہیں، لہذا اس صورت میں جب کہ پگڑی کی قانوناً حیثیت مالکانہ نہیں ہوتی، بلکہ کرایہ داری کی ہوتی ہے، سوسائٹی کس بات کی پابند ہوگی؟ آیا بغیر معاوضہ کے دوکانیں خالی کرائی جائیں؟یا پھر انہیں معاوضہ ادا کرنا لازمی ہے؟اور اگر معاوضہ دینا ہے تو اس کا حساب کیسے لگایا جائے؟

4: سابقہ سوسائٹی کے ممبران نے دوکانوں اور فلیٹ والوں سے یا کرایہ داروں سے جو غیراسلامی اور ناجائز معاہدے کررکھے ہیں تو نئی سوسائٹی کے ممبران مذکورہ معاہدوں کے پابند ہوں گے یا نہیں ؟

5: تمام دوکاندار اور فلیٹوں میں رہنے والے مسلمان بھائی ہیں، اور  مسجد کے نمازی ہیں ، آیا ان مسلمانوں پر مسجد کے معاملات کے میں مکہ مسجد ٹرسٹ اور سوسائٹی کے ساتھ تعاون کرنا لازم ہے یا نہیں؟ اسلام اس حوالہ سے مسلمانوں کو کیا کہتا ہے؟

جواب

جواب سے قبل دو باتیں بطورِ تمہید ذہن نشین کرلی جائیں:

(1)ازروئے شرع جب کوئی زمین یا جگہ  كسى خاص مصرف كے ليے وقف كى جائے تو واقف کی جانب سے وقف کرتے ہی وقف تام ہوجاتاہے،اور وقف تام ہونے کے بعدموقوفہ جگہ قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، بعدازاں اس موقوفہ جگہ کو  نہ خریدو فروخت کرنا جائز ہے ،نہ کسی کو مالک بنانا جائز ہےاور نہ ہی اس میں وراثت جاری ہوتی ہے،بلکہ واقف نے وہ جگہ جس جہت اور مقصد کے لیے وقف کی ہو ،اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔

(2) شریعت  کی رو سے مروجہ پگڑی کا  معاملہ  درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جُلامعاملہ ہے،لہذا پگڑی پر جائیداد لینے والا شخص پگڑی کی مد میں جتنی رقم  دیتا ہے، وہ بدستور اس کا حق دار رہتا ہے، اور پگڑی پر جائیداد دینے والا شخص اپنی جائیداد کا مالک رہتا ہے۔

1-3: لہذا صورتِ مسئولہ میں کاٹھیاواڑ کوآپریٹیو ہاسنگ سوسائٹی کے ذمہ داران نےمذکورہ سوسائٹی کے بلاکA میں  جوتین ہزار پانچ سو گز رقبہ پر مشتمل جگہ  "مکہ مسجد" کے لیے مختص و متعین کرکے وقف کردی تھی،وہ جگہ ہمیشہ کے لیے مسجد اور مسجد کے مصالح اور ضروریات میں استعمال کرنا لازم ہے،لہذاسوسائٹی ممبران کی جانب سے مذکورہ موقوفہ جگہ پر مسجد کی ضروریات کے لیے بنائی گئی دکانیں اور فلیٹ وغیرہ  پگڑی کے نام پر لوگوں کو دینا جائز نہیں ہے،اور نہ ہی پگڑی پر مذکورہ دکانوں اور مکانوں کو لینے والے اس کے مالک ہیں، کیوں کہ اولاً تو یہ جگہ ، دکانیں اور مکان وغیرہ  ہی موقوفہ زمین پرمسجد کی ضروریات کے لیے بنائے گئے ہیں، جس کی خریدوفروخت ممنوع ہے، دوسرا پگڑی کامعاملہ پائے جانے کی وجہ سے بھی وہ لوگ مذکورہ دکانوں اور مکانات کے مالک نہیں بن سکتے۔

اب اس کا شرعی حل یہ ہے کہ پگڑی پر مکانات اور دکانیں لینے والوں نے پگڑی کا معاملہ کرتے وقت جتنی رقم سوسائٹی کے ذمہ داران کو پگڑی کی مدمیں دی تھی،وہ انہیں واپس کردی جائے، البتہ ماہانہ کرایہ کی مد میں جو رقم حاصل ہوتی رہےہو وہ واپس نہیں کی جائے گی،اور دکانیں اور مکانات خالی کرکے واپس کردیے جائیں، تاکہ مسجد کی انتظامیہ اس جگہ کو مسجد کی توسیع کے لیے استعمال کرسکے۔

4-5: سابقہ سوسائٹی ممبران نے  مکہ مسجد کےلیے وقف مذکورہ  مکانات و دکانوں کے حوالہ سے پگڑی کے جو غیرشرعی معاہدے کیے ہیں،ان کی پاسداری کرنا اور ان کو جاری رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے، فریقین پر لازم ہے کہ وہ فی الفور اِن معاہدوں کو ختم کردیں،اور شریعت کے مذکورہ بالا احکامات کے مطابق اپنے معاملات کریں، کیوں کہ کسی غیرشرعی معاملہ پر رضامند رہتے ہوئے اسے برقرار رکھنا ناجائز ہے،یہ رضابالعصیۃ کے زمرے میں آتا ہے۔

روح المعانی میں ہے:

"يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا ‌أموالكم ‌بينكم ‌بالباطلبيان لبعض المحرمات المتعلقة بالأموال والأنفس إثر بيان تحريم النساء على غير الوجوه المشروعة، وفيه إشارة إلى كمال العناية بالحكم المذكور، والمراد من الأكل سائر التصرفات، وعبر به لأنه معظم المنافع، والمعنى لا يأكل بعضكم أموال بعض،والمراد بالباطل ما يخالف الشرع كالربا والقمار والبخس والظلم."

(سورة النساء، ج:3، ص:16، ط:دارالكتب العلمية)

الجامع لأحكام القرآن للقرطی میں ہے:

"قوله تعالى: (وقتلهم الأنبياء بغير حق) أي ونكتب قتلهم الأنبياء، أي رضاهم بالقتل. والمراد قتل أسلافهم الأنبياء، لكن لما رضوا بذلك صحت الإضافة إليهم. وحسن رجل عند الشعبي، قتل عثمان رضي الله عنه فقال له الشعبي: شركت في دمه. فجعل الرضا بالقتل قتلا، رضي الله عنه قلت: وهذه مسألة عظمى، حيث يكون الرضا بالمعصية معصية. وقد روى أبو داود عن، العرس بن عميرة الكندي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إذا عملت الخطيئة في الأرض كان من شهدها فكرهها- وقال مرة فأنكرها- كمن غاب عنها ومن غاب عنها فرضيها كان كمن شهدها). وهذا نص."

(تفسيرسورة آل عمران،ج:4،ص:295،ط:دار الكتب المصرية،القاهرة)

عمدة القاری میں ہے:

"الرضی بالحرام حرام."

(باب آكل الرباوشاهده،كاتبه،ج:17،ص:320،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعندهما ‌حبس ‌العين ‌على ‌حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما."

(كتاب الوقف، الباب الأول في تعريفه وركنه وسببه وحكمه وشرائطه، ج:2، ص:350، ط:دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة.

وفي الرد:(قوله على حكم ملك الله تعالى) قدر لفظ حكم ليفيد أن المراد أنه لم يبق على ملك الواقف ولا انتقل إلى ملك غيره، بل صار على حكم ملك الله تعالى الذي لا ملك فيه لأحد سواه، وإلا فالكل ملك لله تعالى.

(قوله وعليه الفتوى) أي على قولهما يلزمه. قال في الفتح: والحق ترجح قول عامة العلماء بلزومه؛ لأن الأحاديث والآثار متظافرة على ذلك، واستمر عمل الصحابة والتابعين ومن بعدهم على ذلك فلذا ترجح خلاف قوله اهـ ملخصا."

(كتاب الوقف، ج:4، ص:339، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"فإذا ‌تم ‌ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن.

وفي الرد:(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه."

(كتاب الوقف، ج:4، ص:352، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."

(كتاب الوقف، مطلب استأجر دارا فيها أشجار، ج:4، ص:433، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"صرحوا بأن ‌مراعاة ‌غرض الواقفين واجبة."

(كتاب الوقف،مطلب ‌مراعاة ‌غرض الواقفين واجبة والعرف يصلح مخصصا، ج:4، ص:445، ط:سعيد)

"الفقہ الاسلامی وادلتہ" میں ہے:

"إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته."

(الباب الخامس:الوقف، الفصل الثالث:‌‌ حكم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دارالفكر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: مسجد کی کچھ زمین وقف شدہ ہے، ا س زمین کے قرب و جوار میں آبادی ہوگئی ہے، اب اس کی آمدنی پہلے سے کم ہونے لگی ہے،اب متولیان مسجد چاہتے ہیں کہ اس زمین کو فروخت کردیاجائے،اور دوسری زمین خریدی لی جائے،تبادلہ کرلیاجائے، لیکن واقف نے اس قسم کی کوئی شرط نہیں لگائی تھی،تو اب اس کی فروختگی کا درست ہے یا نہیں؟

جواب: جو زمین باقاعدہ مسجد کے لیے وقف ہے، آمدنی کم ہونے کی وجہ سے ا س کی بیع جائز نہیں ، ا س کو اسی طرح رکھا جائے گا۔"

(کتاب الوقف، ج:14، ص:325، ط:ادارۃ الفاروق)

خیرالفتاوی میں ہے:

"سوال: محمد اسلم نے اپنے بنے ہوئے چار کواٹر جامعہ خیرالمدارس کو وقف کردیے ہیں،کیا جامعہ خیرالمدارس ان چار تعمیر شدہ کواٹروں کو فروخت کرسکتا ہے؟

جواب: ان وقف شدہ کواٹرز کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ جو جگہ وقف ہوجائے وہ بندہ کی ملک سے نکل کر اللہ کی ملک میں چلی جاتی ہے۔"

( احکام المدارس، ج:6، ص:605، ط:مکتبہ امدادیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الأشباه : لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف. (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها."

( کتاب البیوع، ج: 4، ص: 518، ط: دار الفکر بیروت)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"بسااوقات ایک آدمی اپنا مکان یا دوکان ایک طویل مدت کے لیے کرایہ پر دیتا ہے اور کرایہ دار سےکرایہ کے علاوہ کچھ رقم یکمشت بھی وصول کرتا ہے، جو پگڑی کہلاتی ہے،کرایہ دار یکمشت رقم دے کر اس بات کا حق دار ہوجاتا ہے کہ ایک طویل مدت یا تاحیات کرایہ داری کو جاری رکھے، بعض حالات میں وہ اپنا یہ حق کسی دوسرے کرایہ دار کو منتقل کرکے اُس رقم سے یہ رقم لے سکتا ہے، اور اگر اصلی مالک دوکان یا مکان واپس لینا چاہے تو اُسے یہ رقم واپس کرنا ہوگی۔

اس مروجہ پگڑی کے بارے میں علماء کرام نے عدم جواز کا قول فرمایا ہے، کیوں کہ یہ نہ تو نزول عن الحق ہے اور نہ اُجرتِ معجلہ ہے بلکہ یہ حقِ مجرد کی فروخت ہےجوکہ ناجائز ہےاور یہ پیشگی رقم رشوت ہے جو کہ نصِ قطعی کی رُو سے حرام ہے، لہذا مروجہ پگڑی کی رقم شرع کے خلاف ہے۔"

(کرایہ کی دوکان یا مکان پر پیشگی رقم(پگڑی) لینے کی شرعی حیثیت، ج:6، ص:35، ط:مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک)

احسن الفتاوی میں ہے:

"پگڑی لینا دینا ناجائز ہے۔قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالي: وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة.(رد المحتار)."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد والباطل، ج:6، ص:568، ط:سعید)

فتاوی عثمانی میں ہے:

"مروجہ پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے۔"

(پگڑی کا حکم، کتاب الاجارۃ، ج:3، ص:405، ط:مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144408101702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں