ہمارے گاؤں میں 1960 کی دہائی سے ایک مسجد بنی ہوئی ہے، جس کے ساتھ مدرسہ بھی قائم ہے، وقت گزنے کے ساتھ مسجد کا تعمیر شدہ ہال، صحن اور وضو خانہ گاؤں کے مقامی افراد کے لیے ناکافی ہوگیا،اس لیے مسجد کی توسیع کا فیصلہ کردیا گیا ،مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے، اب مسجد کے صحن ا و ر وضو خانوں کی توسیع کی ضرورت پڑگئی ہے، کیا ہم مدرسے کی زمین سے کچھ حصہ کو مسجد میں شامل کرسکتے ہیں، جب کہ مدرسہ کی عمارت کو مسجد کی چھت پر منتقل کرنے کا انتظام ہے ؟
جو جگہ مدرسہ کے لیے وقف ہو ،اس کے کسی حصہ کو مسجد میں شامل کرنا جائز نہیں ہے ،البتہ جو مکتب وغیرہ مسجد کی حدود میں ہوتے ہیں اور زمین وقف کرنے والے نے یہ شرط بھی نہ لگائی ہو کہ اس کو مکتب ہی رہنے دیا جائے تو اس کو مسجد میں شامل کرنےکی گنجائش ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں یہ مدرسہ اگر مسجد کا تابع نہ ہو تو اس کومسجد میں شامل کرنا جائز نہیں ہے ،ورنہ اس کو مسجد میں شامل کرنے کی گنجائش ہوگی ۔
تکملہ رد المحتار میں ہے:
"وقد صرحوا بأن شرط الواقف كنص الشارع فأشبه الإرث في عدم قبوله الإسقاط."
( كتاب الإقرار،باب إقرار المريض،336/8،ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے :
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."
(كتاب الوقف،فصل إجارة الواقف،445/4،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية."
( كتاب الوقف،الباب الثانی فیما یجوز وقفه،336/2،ط: رشیدیه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512101344
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن