کیا کوئی مدرسہ بن رہا ہو اس کی تعمیر میں زکوٰة کے پیسے دیے جا سکتےہیں؟
زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے مدرسے کی تعمیر وغیرہ پر زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی، باقی نفلی صدقات وعطیات مدرسے کے تعمیراتی کاموں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
''فتاوی عالمگیری'' میں ہے:
" لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين".
(کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف،ج:1،ص:188، ط: رشیدیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408101169
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن